میں کیا کروں؟

“کیا ہو رہا ہے گڑیا؟” ہاتھ میں لیپ ٹاپ سنبھالے احمد صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور بستر کے دائیں والی طرف پر بیٹھ گئے۔ یہ جگہ ہمیشہ سے ان کے لئے مختص تھی۔

“جہاد!!” اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر بیٹھی کرن کے جواب پر احمد صاحب کو یکدم جھٹکا لگا۔ “جی بیٹا؟؟” انہیں یوں محسوس ہوا جیسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہو۔

“بابا! میں جہاد کر رہی ہوں۔۔۔” انہیں اپنی اکلوتی 8 سالہ بیٹی کرن سے اس جواب کی توقع قطعاً نہیں تھی۔ کرن فرش پر بیٹھی تھی۔ اور ایک کاغذ پر سرخ رنگ کا تکون بنا رہی تھی۔ کاغذ کے دائیں جانب میں اس کا کلر باکس رکھا تھا اور بائیں طرف سلیقے سے سیاہ، سفید اور سبز کلر پینسل رکھی تھیں۔

“ہیں۔۔جہاد کر رہی ہو؟” احمد صاحب نے بے ساختہ تصدیق چاہی۔ “جی بابا! ماما نے کہا تھا۔” ماما نے میری بیٹی کو جہاد کرنے کا کہا تھا۔” احمد صاحب نے فوراً لیپ ٹاپ کو تکیہ پر رکھا اور حیرت سے استفسار کیا۔”نہیں تو۔۔۔ ماما نے مجھ سے نہیں کہا تھا۔ کل خالہ جان آئی تھی ناں، ان سے کہا تھا۔” اس نے تکون میں رنگ بھرتے ہوئے کہا۔”تو تم کیا کر رہی ہو؟” کرن جواب میں کچھ دیر بابا کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پھر کھڑے ہو کر بستر کے دائیں طرف بڑھی۔” آپ اسے پیک کر دیں بابا!” اس نے کاغذ احمد صاحب کو تھماتے ہوئے کہا۔”یہ کیا ہے گڑیا؟”

“بابا میں تو یہ ہی کر سکتی تھی ناں۔ اچھا نہیں ہے کیا؟” ننھی کرن کی گڑبڑاہٹ دیکھ کر احمد صاحب نے پہلی دفعہ اس کاغذ کو بغور دیکھا۔چاروں طرف سرخ بارڈر۔دائیں طرف ایک مسجد۔ بائیں طرف ایک جھنڈا سیاہ، سفید، سبز رنگ کی پٹی، سرخ تکون اور بھورے رنگ کی ڈنڈی کے ساتھ اور درمیان میں انگریزی حروف تہجی میں “آئی ایم ود یو، او مائی پیلسٹائن!” (میں تمہارے ساتھ ہوں، اے میرے فلسطین) درج تھا۔

“بہت خوبصورت ہے۔ بہت پیارا” انہوں نے کہا۔ بارڈر ٹیڑھا بنا ہوا۔مسجد میں کوئی رنگ نہ تھا۔فلسطینی پرچم سے سبز اور سیاہ رنگ باہر نکل رہا تھا۔کاغذ پر لکھی چند سطور ترچھی تھیں۔ مگر!کرن کی آنکھوں میں موجود جنون خالص تھا۔چہرے سے ہی مقصد واضح تھا۔عمر چھوٹی سی لیکن خواب بڑا تھا۔اپنے جیسے ننھے پھولوں کی مدد کا شوق تھا۔

وہ سوچنے لگے، “ہمارے گھر میں تو فلسطین کا کوئی خاص ذکر نہیں ہوتا۔ ایسا ماحول کہاں ہے ہمارے گھر کا! ہم تو ہر کام اپنی روٹین میں کرتے ہیں۔ لیکن صدف نے ایک چھوٹی سی بات کی ہوگی اپنی بہن سے جسے کرن نے سنا اور اپنے ذہن میں بٹھا لیا۔”بابا! آپ تو بتا ہی نہیں رہے۔” کرن کی آواز پر انہوں نے گردن موڑی۔”جاؤ اپنی ماما کو دکھاؤ جا کر۔ وہ بتائیں گی۔” انہوں نے کرن کو صدف کے پاس بھیجا۔

“سو کتنے پیارے ہوتے ہیں یہ بچے، کتنی جلدی باتوں کو سمجھتے ہیں۔” سوچوں کا سلسلہ وہیں سے جڑا۔ “اگر ہم انہیں بچوں کو بچپن سے اپنی تاریخ سنائیں۔ مسلم تاریخ۔ جس سے حقیقتاً ہم بھی صرف کورس بک کی حد تک واقف ہیں۔ جسے بھول کر ہی آج ہم مسلمان جگہ جگہ غیر مسلموں کی غلامی کر رہے ہیں، تو کیا یہ بچے نہیں سمجھیں گے، بلکہ یہ ضرور سنیں گے۔ ان کے دل میں اللہ کی محبت، اللہ کے دین کی اور اللہ کے بندوں کی محبت پیدا ہوگی۔ کیا یہ ہی محبتیں دور حاضر کی ضرورت نہیں ہیں؟ کیا یہ وہی محبتیں نہیں، جن کی قلت کے سبب مسلمان زوال کی طرف جا رہے ہیں۔”

“یہ آپ نے بنوایا ہے کرن سے؟”  سوچوں کا سلسلہ اس بار صدف کی آواز پر ٹوٹا۔” نہیں تو۔”” کہہ رہی ہے کہ جہاد کر رہی ہوں۔” “ہمم، میں بھی کافی حیران ہوں۔”خاموشی۔”بات تو ویسے ٹھیک ہے اس کی۔” احمد صاحب کی آواز پر صدف ٹھٹکیں۔

” فلسطین میں جیسے حالات ہیں، فی الوقت ان کے لئے جہاد کی اشد ضرورت ہے۔ میں کل بھی ٹی وی میں دیکھ رہا تھا وہاں کے مظالم۔ مسلمانوں کی بد حالی۔۔۔”لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں سوائے دعا کے؟” صدف نے کرن کو گود میں اٹھا کر بیڈ پر بٹھایا۔”جہاد!!”جہاد ۔ ہم؟؟”

“ہاں اپنے حصے کا جہاد۔ جو جتنا کر سکتا ہے۔ اپنی استطاعت کے مطابق۔ اپنی صلاحیتوں کے مطابق۔ اپنی عمر کے مطابق۔ بس نیت خالص اور جذبہ بڑا ہو۔ پھر اللہ خود راہیں ہموار کر دے گا۔””جیسے کرن کا جذبہ۔” صدف نے کرن کا سیدھی طرف کا گال چوما اور اس کا ہاتھ نرمی سے مسلتے ہوئے بولیں۔ “میں کیا کر سکتی ہوں پھر؟”

” میں نے تو یہ ہی سنا ہے کہ جو بول سکتا ہے، وہ بولے۔ جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے، وہ کرے۔ جو لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ لکھے۔ جس کی آواز اچھی ہے، وہ کسی نغمے کے ذریعے یکجہتی کا احساس دلائے۔ جو جتنی استطاعت رکھتا ہے، اتنا مال خرچ کرے۔ یہاں تک کہ جو صرف دعا ہی کر سکتا ہے وہ دعا کر کے جہاد کا حصہ بنے۔” احمد صاحب نے جھک کر کرن کا بائیں طرف کا گال چوما، پھر کہا، ” اور جو ڈرائنگ بنا سکتا ہے، وہ ڈرائنگ بنائے کرن کی طرح اور جو اپنے سے چھوٹوں کو اس بارے میں بتا سکتا ہے, ان کی ذمہ داری کا احساس دلا سکتا ہے، وہ دلائے۔ بالکل کرن کی ماما کی طرح!” انہوں نے مسکرا کر وہ تمام نکات دہرائے جو کئی دن پہلے انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں پڑھے تھے مگر انہیں وہ نکات آج سمجھ آئے تھے۔

صدف کے چہرے پر نرم سی مسکان بکھری، کہنے لگیں اور کرن کے بابا کی طرح بھی۔دو لوگوں کے نرم سے قہقہے۔”سچ بتاؤں تو اس کے جذبہ نے مجھے ذمہ داری کا احساس دلایا۔” احمد صاحب نے آنکھوں سے کرن کی طرف اشارہ کیا۔

“کہتے ہیں ناں کہ بچے بعذ اوقات وہ بات بھی سمجھ جاتے ہیں جو بڑے آسانی سے نہیں سمجھ پاتے۔” صدف نے کہا۔” ادھر آؤ، بابا کی گڑیا۔” احمد صاحب نے کرن کو اپنے پاس بلا کر گود میں بٹھالیا۔