معاشرے میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل ( دوسرا اور آخری حصہ)

ڈپریشن اور انزائٹی یعنی تھکن کی سب سے اہم وجہ کمپیوٹرئز موبائلز فون کا استعمال ہے۔ اس کی برقی لہروں سے پیدا ہونے والی شعائیں براہ راست دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان آلات کا بے جا استعمال انسان دماغ کو بوجھل کردیتا ہے اور آنکھوں کی پتلیوں پر مظر اثرات مرتب کرتا ہے۔ دماغ مسلسل حرکت میں رہتا ہے جس سے نیند کے خلیات اور ہارمون کا روازن بگڑ جاتا ہے اور انسانی دماغ متحرک نہیں ہو پاتا اور سونے کی کیفیت طاری نہیں ہوپاتی جس کا نتیجہ بے خوابی اور تھکن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جو کہ ذہنی دباﺅ کی اولین علامت میں سے ایک ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق موبائل فون سے نکلنے والی برقی لہریں انسانی دماغ کے لیے انتہائی خطرناک ہیں لہذا سوتے وقت موبائل فون کو کم سے کم ۲ فٹ کے فاصلے پر رکھنا چاہیے تاکہ انسانی دماغ پر اس کا اثر کم پڑے اور اس پرنیند کی کیفیت طاری ہو سکے۔

دیگر وجوہات میں ذہنی کمزوری بھی شامل ہے ۔ پیدائشی یا حادثاتی طور پر دماغی صلاحیت کا کم ہوجانا یا بگڑ جانا ممکن ہے۔ اسی طرح وراثت میں ملنے والی بیماریوں میں یہ نفسیاتی بیماری بھی شامل ہے جو دیر بدیر ظاہر ہو سکتی ہے۔

کویڈ 19 اور معاشرتی مسائل کی یلغار:

موجودہ دور کو نفسیاتی مسائل کے حوالے سے دو ادوار میں تقسیم کرنا مناسب ہے۔ عالمی وبا کووڈ 19 نے دنیا کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ نا صرف دنیا کے معاشی و معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوا بلکہ دنیا نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے۔ اس وباءنے ہر عمر کے مرد و عورت کو متاثر کیا یہاں تک کہ بچوں اور بوڑھے حضرات اس کا شکار ہیں۔ 2019 تک ان نفسیاتی مسائل کا تناسب قدرے کم تھا اور ہم آرام سے ان کو ذہنی مریض کے مختلف طبقات میں شمار کر لیاکرتے تھے جن میں گھریلو تشدد، ناچاکی، معاشرتی تفریق یا ذہنی صلاحیتوں کی کمی کے ساتھ ساتھ وراثت میں ملنے والی ذہنی کمزوری شامل ہوتی تھی یا کسی حادثے یا صدمے کی وجہ سے انسانی ذہن میں رونما ہونے والے نفسیات و ذہنی بگاڑ کا پیدا ہونا تھا۔ اس وقت تک ذہنی علامت میں ذہنی دبا یعنی اسٹرس اور تھکاوٹ انزائٹی کے وجوہات کو اہم سمجھاجاتا تھا۔ ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کے واقعات کا رونما ہونا بھی اس وقت کا اہم موضوع تھا۔ پر کووڈ 19 کے بعد نفسیاتی مسائل میں بتدریج اضافہ ہوا ۔ اس کی عام وجہ خوف و ہراس ہے جو اس بیماری کے سبب ذہنی انتشار کا باعث بن رہی ہے۔ اس بیماری نے نہ صرف انسان کو اعصابی تناو کا شکار کر رکھاہے بلکہ نفسیاتی امراض جن میں چڑچڑاپن، غصہ اور خود پرستی شامل ہیں، میں مبتلا کر دیاہے۔ اس کی واضح مثال گزشتہ برس جب امریکہ جیسے ترقی ممالک میں لاک ڈاؤن کے دوران غیر معمولی واقعات دیکھنے میں آئے جن میں بیماری سے بچنے کے لیے لوگوں نے ڈیٹول اور بلیچ جیسے چیزوں کا استعمال کرکے اپنی زندگی کو داﺅ پر لگایا اور آنے والے وقت میںخوف اور تنگدستی کے سبب بھوک و افلاس سے بچنے کے لئے دکانوں اور مالز میں لوٹا ماری کی۔ اس وبا ءکی لہر نے دنیاوی نظام کے توازن میں بگاڑ پیدا کی۔ جس کی اہم وجوہات میں خود کو تنہا کرنایا سماجی دوری شامل ہے اور روزمرہ کے معمولات کو ترک کرنا شامل ہے۔ سماجی دوری اس انتشار کا جز ہے۔ عدم اعتماد اور دوسرے انسان سے بیماری کے لگ جانے کے ڈر نے عام آدمی میں تشدد اور خود پرستی کے رجحان کو بڑھایا جوکہ علم نفسیات میں کی اہم شاخ ہے۔

ڈاکٹر مائدہ شیخ جو کہ پریکٹسنگ سائیکولوجسٹ ہیں، ان کے مطابق”کووڈ سے پہلے اور کووڈ کے بعد نفسیاتی مسائل کی نوعیت میں کوئی خاص فرق دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہاں ان کے واقع ہونے کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ انزائٹی جن لوگوں میں پہلے ہی موجود تھی اب شدت سے ان پر اثر انداز ہورہی ہے کیونکہ انزائٹی اور ذہنی دباؤ  ایک ایسی وسیع اصطلاح ہے جس میں ان گنت مسائل شامل ہیں۔ لوگ پہلے بھی جانتے تھے کہ موت آنی ہے مگر کووڈ کے بعد اب ہر گھر پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں اور 100 میں سے ہر 4 گھر کے افراد اس مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ تجارتی سرگرمیوں میں کمی سے جو مالی خسارے کی صورت حال ہے اس سے ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے۔ جن گھرانوں میں مار پیٹ کا ماحول تھا وہ لوگ باہر جاکے خود کو محفوظ سمجھتے تھے اب سماجی فاصلے کی وجہ سے گھر میں محصور ہو کے اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہورہے ہیں۔

جب ہم نے ڈاکٹر مائدہ شیخ صاحبہ سے پاکستان کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں انہوں نے کہا، ”کووڈ سے پہلے تک پاکستان میں موجود 4 میں سے 1 بچے کے والدین ذہنی مسائل کا شکار ہیں مگر کووڈ کے بعد تک ابھی کوئی ریکارڈ جمع نہیں کیا جا سکا ہے۔“

ایک اور سوال میں انہوں نے بتایاکہ” USAR کے طلباءمیں ذہنی تناو میں %71 کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یقینا باقی دنیا میں بھی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہوگا۔“

معاشرے میں بڑھتے نفسیاتی مسائل کا سد باب:

اگر انسانی رویوں کی بات کی جائے تو نفسیاتی مسائل کا تعلق نفسانی خواہشات کی بدولت ہوتا ہے۔ نفسانی خواہشات انسان کو خوب سے خوب تر کی دوڑ پر لگا دیتی ہے جہاں انا پرستی انسان کو پسپا کر دیتی ہے۔ خود کو معتبر جاننا اور دوسرے کو حقیر سمجھنے کی عادت سے انسان بے ترتیبی کا شکار ہوجاتا ہے اور ممکنا شکست اس کو دماغی عارضے میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسی طرح ایسے لوگ جو خوف اور غم میں مبتلا رہتے ہیں وہ بھی اس مرض کا شکار بن جاتے ہیں۔ آب و ہوا اور ماحول میں شامل ڈر نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نا صرف عام آدمی بلکہ طبیب بھی تناﺅ کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کا فوری حل شخصی مشاورت یعنی شخصی کاﺅنسلنگ ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق متاثرہ شخص کی پریشانی کو سننا اصل میں اس کے ذہنی تکلیف کا ۰۵ فیصدتدارک ہے۔

ان عوامل میں جو بات سامنے آئی وہ یہ ہےںکہ حالات حاضرہ میں انسانوں کو نئے چیلینج کا سامنا ہے۔یہ وباءانسانی نفسیات میں تبدیلی لا رہی ہے۔ دنیا نئے انداز سے اپنے طور طریقوں کو اپنانے کے جتن کر رہی ہے۔ سماجی رکھ رکھاﺅ میں تبدیلی کی خاص وجہ یہ وباءہے جس نے معاشرے میں انتشار برپاکردیا ہے۔ ہر انسان اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے ۔ مالی بدحالی اور معشیت کی تباہ کاری کے سبب دنیا کا نظام بدل چکا ہے۔ امن و امان کی صورت حال بد سے بد تر ہوچکی ہے۔ ملکی سالمیت داﺅ پر ہے۔ اس وباءکے اب تک ویکسین عام نہ ہونے کی وجہ سے تمام ممالک کے افراد نا امیدی میں مبتلا ہیں۔ دنیا کے ہر کونے سے صرف کووڈ ۹۱ کے متعلق خبروں نے انسانی اعصاب کو نا کارہ اور سوچ کو مفلوج کردیا ہے۔سوچنا یہ ہے کہ کووڈ 19سے پہلے اور کووڈ 19کے بعد کی دنیا میں کتنا فرق دیکھنے میں آئے گا۔ دنیا جو گلوبلائزیشن کے تحت آگے بڑھ رہی تھی اور فاصلے مٹ گئے تھے۔ کیایہ وباءذہنی و شعوری لحاظ سے انسانوں میں تفریق پیدا کردے گی؟

ان ذہنی و نفسیاتی مسائل کا حل بے حد ضروری ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ انسان ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجائیں ۔صرف جسمانی و نفسیاتی بلکہ روحانی امراض جس میں لالچ طمع خود غرضی جیسی کیفیات شامل ہیںوہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہوں گی اور انسانی نفسیات حیوانیت کا مظاہرہ کرے گی ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم قدرت کی طرف متوجہ ہوں اور برقی آلات سے کچھ دیر دور ہنے کی عادت ڈالیں۔ کھلی فضا اور کھلے آسمان تلے اپنا وقت صرف کریں تاکہ ہم ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند ہو سکیں اور نفسیاتی مسائل میں کمی آسکے۔