مسجد اقصی پکا رہی ہے

ہم کیسی قوم ہیں ہمارے بارے میں مؤرخ کیا لکھے گا کہ جس شب یہودیوں نے غزہ پر ایک بار پھر حملہ کیا اور مسجد اقصی کی حفاظت کے جرم میں ملکی مین اسٹریم میڈیا کے مطابق 87 فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے اسی رات پاکستان کے دیندار مسلمان چاند ہوا یا نہیں اور روزہ قضا رکھنا ہے یا نہیں رکھنا، جیسی بحث میں الجھے ہوئے تھے،  قوم کے رہبر اور رہنماؤں کی اہمیت اسی لئے بہت ہوتی ہے کہ رہبر اور رہنما قوموں کی ترجیحات طے کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے قوم نے دیہاڑی دار رہبر و رہنما چن لئے، ان دیہاڑی داروں کی ترجیحات اور ان کے پیٹ کا مروڑ فقط دیہاڑی لگانا ہی ہوتا ہے عالمی اور ملکی حالات سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔

 عالمی طاقتیں بھی ہمارے اوپر ایسی ہی نا اہل دیہاڑی باز قیادت کو مسلط کرنا چاہتی ہیں، سو ہر طرف سے ہمارے لئے بری خبروں کا آنا ہی ہمارا مقدر بن گیا، 1917 میں جب فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا تو دنیا بھر کے یہودی جو پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ ہمارا اصل وطن فلسطین ہے ہمیں وہاں جانا ہے انہوں نے اپنی اڑان تیز کردی۔

  کچھ ہی عرصے میں 6 لاکھ یہودی فلسطین میں آکر آباد ہوگئے , یہودی بیت المقدس کو یروشلم کہتے ہیں ۔ یہودیوں کی غاصبانہ آبادی پر فلسطین کے مسلمانوں نے احتجاج کیا ۔ ہندوستان کے مسلمان بھی فلسطین کی آواز بنے ۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رح نے فرمایا کہ اگر اس اصول کے تحت اقوام متحدہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کر رہی کہ کبھی یہاں یہودی آباد تھے تو پھر اسپین پر مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے بعد میں عیسائیوں نے اسپین سے مسلمانوں کو بے دخل کیا تھا۔ اقوام متحدہ اسپین میں بھی مسلمانوں کو آباد کرے ۔ بانیان پاکستان جہاں ہندوستان میں الگ وطن کی تحریک چلا رہے تھے وہیں فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بھی شدید مذمت کرتے تھے ۔ آزاد فلسطین بھی بانیان پاکستان کا خواب تھا ۔ یہی وجہ بنی کہ 23 مارچ 1940 کو جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی وہیں اسی مقام پر دوسری قرارداد فلسطین کے حق میں بانیان پاکستان نے منظور کی۔ 1948 میں جب یہودیوں نے باقاعدہ اسرائیلی ریاست کا دعوی کیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اسرائیل ناجائز بچہ ہے ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔

 بانی پاکستان کے اسی فرمان کی روشنی میں آج تک پاکستان کی خارجہ پالیسی یہی ہے کہ ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ اس وقت منظر نامہ یہ ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا اسرائیل کو سبق سکھائے لیکن دوسری طرف اسرائیل کا اصل سرپرست امریکا اسرائیل کی حمایت میں ہر حد تک جانے کو تیار ہے اس نے آج سلامتی کونسل کا اجلاس بھی مؤخر کروا دیا ہے کیونکہ اس اجلاس میں فلسطین کے مسئلے پر بحث ہونا تھی ۔ ایک طرف کشمیر میں بھارت کی درندہ صفت فوج عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہوئی کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے تو دوسری طرف اسرائیلی درندے فلسطین کے مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر دہشت گردی کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ اسرائیلی میزائل خواتین و بچوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ تڑپتی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنھجوڑ رہی ہیں لیکن عالمی طاقتیں اسرائیل کی لونڈی بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں پوری امت مسلمہ اپنی قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔

پاکستان،سعودیہ اور ترکی اگر مضبوط قدموں کے ساتھ ٹھوس اقدامات کریں تو باقی 54 اسلامی ممالک ان 3 اسلامی ممالک کی پشت پر ہوں گے۔ بیت المقدس پر 1099 عیسوی سے 1187 عیسوی تک تقریبا 88 سال عیسائیوں نے حکومت کی لیکن 1187 عیسوی میں سلطان صلاح الدین ایوبی رح نے یورپ کی متحدہ فوج کو پوری طاقت کے ساتھ شکست دی اور ایک بار پھر بیت المقدس فتح کیا۔ تب سے لے کر 1948 تک تقریبا 761 سال مسلمانوں نے بیت المقدس پر حکومت کی۔

لیکن 1948 میں فرانس، امریکا اور برطانیہ کی سازش سے فلسطین کے علاقے میں یہودی ریاست قائم ہوئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔ تب سے اب تک فلسطینی جہد مسلسل کر رہے ہیں۔

سلطان نورالدین زنگی رح کی فوج کے جرنیل بنے اور جب خود تخت پر آئے تو بیت المقدس فتح کیا اور سلطان نور الدین زنگی رح کا تیار کردہ منبر مسجد اقصی میں رکھا ۔ چھوٹے اپنے بڑوں کا چھوڑا ہوا مشن یوں مکمل کرتے ہیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے فاتحین کی تاریخ پڑھیں۔ اس سے ہماری مایوسی دور ہوگی اور ہمارا عزم جوان ہوگا۔ اس وقت دنیا میں سوا ارب آزاد مسلمان ہیں اور مسجد اقصی یہودیوں کے شکنجے میں ہے۔

ہندوستان میں بابری مسجد اور فلسطین میں مسجد اقصی دنیا بھر کے مسلمانوں کو پکار رہی ہیں اور ہمیں کہہ رہی ہیں کہ مسلمانوں جاگ جاؤ ابھی جاگنے کا وقت ہے، جاگ جاؤ مسلمانو مسجد اقصٰی پکا رہی ہے ۔