حرمت قلم اورآزادی اظہار

مختلف شعبہ جات میںصحافت ایک انتہائی مشکل ترین شعبہ ہے، جس میں نیوزا سٹوری، رپوٹنگ، نیوز ایڈیٹنگ ، کمپوزنگ ،پروف ریڈنگ، پیسٹنگ، کاپی میکنگ اور پرنٹنگ سمیت ہر ایک کام انتہائی محنت طلب ہوتا ہے۔ اور جب ساری دنیا سوتی ہے تب صحافی جاگ کر اپنی قلم چلاتے ہیںاور جب ایک صحافی عوام کو آگاہی دینے کے لئے حقائق سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

جبکہ گزشتہ کئی عشروں سے صحافت اور صحافتی ادارے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کے جبر کے شکنجے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں، انہیں خبر سے زیادہ بیانات کے لیے زور دیا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود آج بھی نظریاتی صحافی اور ادارے آزادی اظہار اور حرمت قلم کیلئے سر بکف ہیں۔

پاکستانی میڈیا اور میڈیا سے وابستہ وہ ورکنگ جرنلسٹ ہوں یا وہ مالکان جنہوں نے صحافت کو بطورکیریئر اختیار کیا، اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود آزاد صحافت کے علم کو تھامے ہوئے ہیں، انہی کے عزم اور حوصلوں نے سچائی جاننے اور عوام کے سامنے حقائق پیش کرنے کے مشن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ بلاشبہ صحافت ریاست کا ایسا چوتھاستون ہے جو باقی تینوں ستونوں، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو بھی طاقت مہیا کرتا ہے، جس سے ریاست کی امارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ صحافی نہ صرف عوامی مسائل اورانتظامی اداروں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور سچ کی کھوج لگا کر اسے عوام تک پہنچاتے ہیں بلکہ حکومت اور رعایا کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں، اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران بعض اوقات لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں صحافت سے وابستہ ایسی تمام شخصیات کو جنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے جابر حکمرانوں کے تمام مکروہ عزائم کو ناکام بنایا۔

بلاشبہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا وہ آئینہ ہے جس میں کرپٹ عناصر اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور پھر اپنا عمل اور کردار درست کرنے کی بجائے آئینہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔جبکہ صحافتی اداروں کو مالی گزند پہنچا کر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا کوئی نئی بات نہیں، آمریت ہو یا جمہوریت ہر دور کے حاکموں نے صحافت کی آزادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوششیں کی ہیں ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمرانوں کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ صرف اپنی شان میں قصیدے پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ آمریت منتخب حکمرانوں کے بھی خمیر میں رچ بس گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی تنقید بھی انہیں گراں گزرتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اقتدار میں آتے ہی بیحد گراں گزرتی تنقید کو کنٹرول کرنے کے لیے ، قومی خزانے کے پیسے بچانے کا نعرہ لگا کر اشتہارات بند کر کے میڈیا ہاؤسز اور اشاعتی اداروں کو شدید مالی نقصان پہنچایا جس سے ملک بھر میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد بے روزگار ہونا شروع ہوئے ۔ اور آج پوری میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہے، اشتہارات کم ہونے اور فنڈز نہ ملنے کے باعث اخبارات اور چینلز بند ہورہے ہیں اور صحافی بیروزگار ہورہے ہیں۔

موجودہ صورت حال کے تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید اداروں میں کارکنوں کی برطرفی کا امکان ہے جس سے ملک بھر کے صحافیوں اور میڈیا ورکرز میں شدید بے چینی پائی جا تی ہے۔ جہاں میڈیا مالکان باآسانی صحافیوں کو کہہ دیتے ہیں کہ کل سے دفتر آنے کی ضرورت نہیں، کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اپنی تمام عمر شعبہ صحافت میں گنوا کر صحافتی تجربہ پانے والے یہ افراد آخر کہاں جائیں گے ، ان کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ اس صورتحال پر ملک بھر سے صحافی معاشی حقوق اور آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی تشکیل دینے پر زور دے رہے ہیں۔

3 مئی کے دن دنیا بھر میںآزادی صحافت کا عالمی دن’’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘‘ منانے کا مقصد پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات،مسائل،اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ آج اگر ہم تحمل سے اس بات پر غور کریں تو انتشار اور بحرانی صورتحال میں صرف اخبارات ہی ہیں جو دیانت داری سے خبر کو سیاق و سباق کے عین مطابق ریٹنگ، بریکنگ نیوز کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر حقائق کی جانچ پرکھ کے بعد شایع کرتے ہیں اور نامساعد حالات میں بھی اپنی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان اخبارات میں بھی علاقائی اخبارات کا کردار قومی اخبارات ہی کی طرح مسلمہ اور حقیقی ہے ۔ لیکن افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے کبھی علاقائی اخبارات کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کی صحافی برادری نے ہمیشہ جمہوریت کی ترویج اوراستحکام کے لئے جدوجہد کی ہے ، اور عدم تحفظ کے احسا س کے باوجود بھی سربکف صحافی عوام کو حق اور سچ سے باخبر رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ حکومت کو صحافیوں کے مسائل کے حل اور ان کے معاشی مستقبل کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لانا چاہیے ۔