تحفظ ختم نبوت اور حکومتی کردار

 فرانس نے کچھ عرصہ قبل سرکاری سطح پرہماررے پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی جس پر مولانا خادم حسین نے جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد کی طرف مارچ کیا اور دھرنا دیاجس سے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور مختلف ذہن مختلف تدابیر سوچنے لگے اورپھر فیصلہ کیاگیا کہ خادم حسین رضوی صاحب سے معاہدہ کیاجائے، اس وقت کے وزیر داخلہ بریگیڈ اعجاز اور وزیر مذہبی امور نے تحریری معاہدے پر دستخط کیے کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے گا اور فرانس کی مصنوعات پر سرکاری سطح پر پابندی عائد کی جائے گی جس پر دھرنا ختم کیا گیا۔

تاہم ایف اے ٹی ایف کی کڑی شرائط اور حکومتی نیت کی خرابی کے باعث معاملہ طول پکڑ گیا جس کے باعث فروری کے مہینے میں مزید ڈھائی سے تین ماہ کا وقت لینے کیلیے مزید ایک معاہدہ کیا گیا جس پر وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر مذہبی امور کے وزیر نے دستخط کیے۔

 معاہدہ کے مطابق فرانس کے سفیر ملک بدری کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی اور قومی اتفاق کے رائے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ 20 اپریل کو حتمی تاریخ طے کی گئی مگر چونکہ حکومتی حلقے اس مسئلہ پر سنجیدہ نہیں تھے لہذا تحریک لبیک کے موجودہ کرتا دھرتا حافظ سعد رضوی سے بیک ڈور خفیہ مذاکرات کیے گئے جوآخروقت تک کامیاب نہ ہوسکے ان مذکرات میں کسی بھی اسٹیک ہولڈر کو شریک نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان مذکرات سے دونوں فریقین نے عوام کو کوئی آگاہی دینا مناسب سمجھا۔

پھر سین کچھ یوں ہوا کہ اچانک سے 12 اپریل کو حافظ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے حکومتی موقف کے مطابق کہ بہت کوشش کی مگر تحریک لبیک نے کوئی تعاون نہیں کیا اور 20 اپریل کو ھر صورت فیض آباد کی طرف مارچ کرنے کی دھمکی دی جس سے ملک میں انتشار پھیلنے کا سبب بتایا دوسری طرف تحریک لبیک نے پاکستان کے مختلف شہروں میں دھرنا دیدیا۔ 2 دن تک پورے پاکستان میں امن و امان کی صورت کشیدہ رہی ، پولیس اور تحریک لبیک کے ساتھ ساتھ راہ گیر تک جان بحق اور زخمی ھوئے۔ اسی اثناءمیں وزیراعظم پاکستان نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کی اور دوسرے دن پاکستان تحریک لبیک پر دھشت گردی آرڈنینس تحت پابندی لگا دی۔

 اس اچانک فیصلے کے باعث عوام مشتعل ہو گئے، حافظ سعد رضوی جنہیں ایم پی او کے تحت بند کیا گیا تھا دوران قید جیل میں ایک قتل کے مقدمے میں پولیس نے انہیں فٹ کردیا اس مقدمے میں دھشت گردی کے دفعات لگائی گئیں، جس سے حالات مزید کشیدہ ھوگئے، نازک مسئلے پر فوری طورپر مذہبی حلقوں نے ہڑتال کی کال تو حکومت نے ہوش کے ناخن لیے اور تحریک لبیک سے دوبارہ مذاکرات کےلیے رضامندی ظاہر کی اور معاملے کو خوبصورتی سے ہینڈل کرتے ہوئے دھرنے کو ختم کرانے میں کامیاب ھو گئی۔

اس عرصے میں ملک معاشی طور مزید پیچھے چلا گیا، جہاں پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچا وہیں کئی قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا۔ پولیس اور تحریک لبیک کے لوگ شہید اور زخمی ہوئے، تاہم حکومت نے صرف تحریک لبیک کے لوگوں کے مقدمات درج کیے سینکڑوں لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے روانہ کیا۔

اس بگڑتی صورتحال کے پیچھے حکومت پاکستان کی نااہلی کھل کر سامنے آئی، حکومت میں کوئی سنجیدہ شخص نہیں جو بہتری کی پالیسیاں مرتب کرتا، سب سے پہلے تو حکومت کو تحریک لبیک سے معاہدہ نہیں کرنا چاہیےتھا جب نیت میں کھوٹ تھی، نیت میں کھوٹ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ 16 نومبر سے 12 اپریل تک معاہدے کے تحت کوئی بھی قرارداد اسمبلی میں پیش نہیں کی ،پہلے معاہدے کوعرصہ 5 ماہ بیت گے تھے اس عرصہ میں حکومت نے ایوان کو اپنے مسائل بتا کر مشاورت سے قرارداد پیش کر سکتی تھی جس سے عالمی سطح پر بھی سراہا جا سکتا تھا اور ملکی سطح پر بھی پیغام دیا جا سکتا تھا کہ ختم نبوت کے معاملے میں ہم پاکستانی ایک ہیںبلکہ او آئی سی کو متحرک کرسکتے تھے اور ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا جاسکتا تھا جس سے لاء اینڈ آرڈر کے مسائل سے بچا جا سکتا تھا ،قیمتی جانیں اور املاک کو نقصان پہنچنے سے روکا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مختلف وزراءاور وزیر اعظم پاکستان نے ابہام زدہ بیانات جاری کیے اور بنا سوچے سمجھے طاقت کا استعمال کیا ۔

اگر فرانس کے سفیر کو نکالنا مقصود نہ تھا تو یہ 5 ماہ پہلے بھی پتہ تھا پھر معاہدہ کرنے اور قوم کو امید کیوں دلائی گی؟ حکومت اب بھی مولانا سعد کو ریلیز نہ کرنے پر پھروہی غلطی دہرا رہی ہے کیونکہ قتل کے مقدمے میں دہشت گردی کی بھی دفعات کا استعمال کیا گیا جوسراسر غلط ہے، کیونکہ سعد رضوی جیل میں موجود تھے اگر قتل کی ترغیب جیل سے دی گی توپھر جیل سپرنٹنڈنٹ کوبھی نامزد کرنا چاہےےکیونکہ ایک شخص حکومت کی تحویل میں رہ کر کیسے ترغیب دے سکتاہے، پیغام رسانی کے لیے تو جیل انتظامیہ بھی استعمالہ ہوئی ہوگی ، تو جیل انتظامیہ کوبھی اس مقدمہ میں نامزد کرنا چاہیے تھا ورنہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اسکے علاوہ کسی سیاسی پارٹی پر دہشت گردی آرڈنینس کے تحت پابندی نہیں لگائی جا سکتی،یہ ایک غلط روش اختیار کی گئی ہے جو بعد میں ان کے اپنے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ تحریک لبیک پر پابندی لگانے کا طریقہ کار فیض آباد دھرنے کے کیس میں جسٹس فائز عیسی بتا چکے ہیں مگر چونکہ وہ اسوقت حکومت کے ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں اس لیے انکا قانونی طریقہ کار بھی حکومت کو پسند نہیں لہذا حکومت کو چاہیے اس پر سنجیدگی سے غور کرے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر متفقہ عوامی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کرے جو عوام اور پاکستان کے لیے بہترہو اور عالمی سطح پر اسے پذیرائی مل سکے۔ بصورت دیگر موجودہ منفی سوچ پاکستان کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہے اور حالات دوبارہ بگڑ سکتےہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اورہمارارے سیاستدانوں کو عقل سلیم عطاءفرمائے۔ آمین