رمضان اور کورونا ساتھ ساتھ

برکتوں اور رحمتوں والے ماہ مبارک رمضان نہ صرف عبادتوں کا مہینہ ہے بلکہ مسلمان کو  اس کی زندگی کا قرینہ بھی سکھاتا ہے جس سے ہر چیز متوازن رہتی ہے جیسے دن بھر کی روٹین اور صحت وغیرہ۔

روزے کے روحانی فائدے ہیں وہاں ان گنت جسمانی فائدے بھی ہیں، جس طرح روزہ ہماری روحانی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے اسی طرح جسم کے فاسد مادوں کو زائل کرنے کے لیے روزہ ضروری ہے جبکہ جسم سے فاسد مادے خارج ہو کر ہمارے جسم و روح صاف کر دیتے ہیں اس طرح روزے کے معاشرتی فائدوں کے ساتھ ساتھ صحت پر مثبت اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

رمضان کے آغاز میں چند دن ہی باقی ہیں لیکن رواں برس یہ مہینہ غیر معمولی حالات میں آ رہا ہے، ایسے حالات کہ جہاں دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور مسلم ممالک بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہیں۔

پاکستانی اور بین الاقوامی ماہرین صحت کا کہناہےکہ رمضان کے مہینے میں مسلسل روزے رکھنے سے وزن میں کمی لاکر نا صرف شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ مسلسل روزے رکھنے سے ذہنی حالت بہتر ہوتی ہے اور مختلف اقسام کے کینسر سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک اس وقت کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہیں اور لاکھوں لوگ اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں اور ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں آنے والے دنوں میں متاثرین میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ کہا جارہا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔

کورونا، یہ وبا پھیلی ہوئی ہے اور مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز ہونے والا ہے اور اس مہینے میں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان سحر سے غروبِ آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں اور اس دوران کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں۔

رمضان کے آغاز سے ہی یہ سوال بھی گردش کرنے لگا ہے کہ اس وبا کا روزے داروں پر کوئی اثر ہو سکتا ہے یا نہیں اور کیا اس وائرس کا شکار ہونے والے یا اس سے صحتیاب ہونے والے افراد روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

صوم یعنی روزہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے تاہم اسلام میں ایسے بیمار شخص کو روزہ قصر کرنے کی اجازت ہے جو اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔

ماہرین صحت کے مطابق انسان کا جسم روزے کے آغاز کے آٹھ گھنٹے بعد تک معمول کی حالت میں رہتا ہے اور یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے اور جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہو جائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہےکہ جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کے بطور خوراک استعمال سے وزن گھٹنا شروع ہو جاتا ہے، کولیسٹرول کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی جسم میں شوگر کم ہونے سے کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس شروع ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ سردرد، سر چکرانا، متلی اور سانس سے بدبو جیسی شکایات بھی ہو سکتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں پاکستان پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو قطعاً روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ وائرس جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ہی حملہ آور ہوتا ہے اور اگر مریض بھوکے یا پیاسے رہیں تو اس سے مدافعتی نظام مزید کمزور ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ناصر حسن کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا جو رجحان نظر آرہا ہے اسے معمولی بیماری، متعدل اور شدید بیماری میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،  تاہم ہم نے یہ بھی دیکھا ہےکہ بعض لوگوں کی ہلکی علامات بعد میں شدت اختیار کر لیتی ہیں۔

ڈاکٹر ناصر کے مطابق اس بیماری میں مبتلا تمام افراد اللہ تعالی کی دی ہوئی رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور صحتمند ہونے کے بعد اپنے روزے شروع کر سکتے ہیں جبکہ اسلامی نظریاتی کاؤنسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا ہےکہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے انھیں تو روزہ رکھنے سے استثنیٰ حاصل ہے۔

تاہم ان کے مطابق جو لوگ تیمارداری پر مامور ہیں ان کا معاملہ فرداً فرداً دیکھنے کی ضرورت ہے اور ایسے افراد علما کی ہدایت کی روشنی میں فیصلے کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب  کورونا سے صحت یاب ہونے پر ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہےکہ جو مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں ان کا جسم جب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتا انھیں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیونکہ اس سے انھیں مزید کمزوری ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر ناصر حسن کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ اسی شخص کو کرنا چاہیے جو صحت یاب ہوا ہے اور جو لوگ اس بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں اور وہ اپنے اندر کمزوری اور نقاہت محسوس نہیں کرتے تو وہ روزے رکھ سکتے ہیں جبکہ کچھ مریضوں کے ٹھیک ہونے کا عرصہ دو ہفتے تو کچھ تین چار ہفتوں میں صحت یاب ہو رہے ہیں اور اب اگر وہ معمولات زندگی درست انداز میں سرانجام دے رہیں تو روزہ رکھ سکتے ہیں۔

تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ذیابیطس اور دیگر بیماریوں میں مبتلا 80 فیصد سے زائد افراد رمضان کے روزے رکھتے ہیں جبکہ گزشتہ سال کورونا کے باوجود 91 فیصد مسلمانوں نے رمضان میں روزے رکھے اور اس سال ایک اندازے کے مطابق 95 فیصد مسلمان روزے رکھیں گے۔

ماہرین صحت کی رائے کو اولیت حاصل ہے اور اگر ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مریض کی حالت ایسی نہیں کہ وہ روزے رکھ سکے تو انہیں اپنے معالج کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے جبکہ ہر سال کروڑوں مسلمان اپنی مختلف بیماریوں کے باوجود روزے رکھتے ہیں، خاص طور پر ذیابیطس میں مبتلا افراد یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ محفوظ طریقے سے کیسے روزے رکھ سکتے ہیں۔

اس سال رمضان کے مہینے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ یہ مبارک مہینہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران آرہا ہے اور امید ہے کہ ماہرین صحت کورونا وائرس کی وبا اور رمضان میں محفوظ طریقے سے روزے رکھنے کے حوالے سے دنیا کے کروڑوں لوگوں کو مفید مشورے دیں گے۔

مرحبا ماہ رمضان …. مرحبا رمضان

(رمضان میں اپنا اور اپنے گھروالوں کا خیال رکھیں اور مرحومین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں)

حصہ
mm
محمد حماد علی خان ہاشمی نے ذرائع ابلاغ میں جامعہ اردو یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے اور اس کے ساتھ پروڈکشن کے کئی کورسیز بھی کئے جبکہ 12 سال سے صحافتی دنیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پچھلے 3 ماہ سے روزنامہ جسارت ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سینئر کالم نگار، صحافی اور اردو کے استاد مرحوم سید اطہر علی خان ہاشمی کے بیٹے ہیں اور مختلف اخبارات ، میگزینز اور سماجی ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جرنلزم کی دنیا میں قدم سندھی چینل آواز ٹی وی سے کیا اس کے بعد فرنٹیر پوسٹ پر رپورٹنگ بھی کی اور 6 سال سماء ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔