غریب مرتا رہے گا کورونا پھیلتا رہے گا

پیر5 اپریل کے دن جے یوآئی ف کے سینیٹرکامران مرتضی نے سینیٹ میں حکومت کے خلاف ایک قرارداد پیش کی ،جس میں کہا گیا کہ کورونا کی ویکسینیشن میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔قرار داد کے متن میں یہ بھی لکھاگیا ہے کہ ویکسین ایسے افراد کو لگائی جارہی جو اثرورسوخ والے ہیں یا جن کی پہنچ اوپر تک ہے۔ عام آدمی تک ویکسین نہیں پہنچ رہی جس کی وجہ سے ملک میں امیر و غریب کے درمیان معاشرتی خلیج پیداہورہی ہے۔ مزید یہ کہ کوروناویکسین کی منصفانہ،غیر جانبدارانہ تقسیم حکومت کی ذمہ داری ہے ،لیکن اس سارے عمل میں حکومتی اقدامات غیر تسلی بخش ہیں۔ حکومت پر فرض ہے کہ اس خطرناک وبائی صورت حال میںعوام کو ویکسین مفت فراہم کرے۔

ہم سوشل میڈیا کے ذریعے سے دیکھتے ہیں کہ مفت میں ملنے والی کورونا ویکسین تک رسائی ایسے افراد کی ہے جن کے تعلقات اونچے درجوں تک ہیں۔غریب عوام کے لیے تو کورونا ٹیسٹ بھی مشکل بنادیا گیاہے،کجا یہ کہ وہ ویکسین کی امید لگائے۔

ملک میں کورونا وبا کی تیسری لہر میں ہر دن اضافہ ہورہاہے اور ہمارے حکمرانوں کو لڑائی جھگڑوں سے فرصت نہیں مل رہی۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی قرارداد منظور ہونے کے بعداوپوزیشن بینچوںوالے سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے حکومت کو شکست دے دی ہے۔ جبکہ ایوان میں حکومتی نمائندوں نے بھی اس موقع پرخوب اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔صحت کے معاملے میں حکومت کی ناسمجھی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی نمائندے قرارداد کی مخالفت میں کھل کر سامنے آئے ۔

جس کی وجہ سے سینیٹ کا سرد موسم انتہائی گرم رہا۔ صحت ایک قومی مسئلہ ہے ۔جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو عوامی تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔لیکن تاحال ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔صحت کے شعبے میں حکومت کی عدم توجہ اور کورونابڑھتے ہوئے کیسز دیکھنے کے بعد بھی کسی پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اگرچہ اوپوزیشن 31 ووٹوں کے مقابلے میں 38 ووٹ لے کر قرارداد پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے،لیکن سوال اب بھی وہیں ہے کہ آیا حکومت ویکسین کی فراہمی میں مساوات کا خیال رکھ رہی ہے؟تاکہ اس سے انصاف کے نظام کو بہتر بنایاجاسکے۔

دنیا بھر میں کورونا ویکسین مفت فراہم کی جارہی ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں ویکسین یاتومل نہیں رہی یا بہت مہنگی مل رہی ہے۔عالمی مارکیٹ میں ویکسین سستی ،جبکہ پاکستان میںسو فیصد اضافی قیمت دینے کے بعد بھی ایک خوراک کا ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ایسے میں حکومت کا یہ دعویٰ بے بنیاد معلوم ہوتاہے کہ حکومت واقعی ویکسی نیشن میںانصاف سے کام لے رہی ہے۔ اس مہنگائی میں جب عوام کے لیے اپنی زندگی کا پہیہ چلانے میں مشکلات درپیش ہوں تو ایسے میں دگنی قیمت میں ملنے والی ویکسین کو کیونکر خرید سکیں گے۔حکومت نے ویکسین منگوانے کے لیے جس پرائیوٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا ہوا تھا اس نے اپنی من مانی قیمتیں مقرر کررکھی ہیں۔

اس کے علاوہ کورونا ٹیسٹ کرنے والی مقامی لیبارٹریزبھی منہ مانگے داموں ٹیسٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک خبر کے مطابق کئی ایک نجی اسپتالوں میں کمیشن کی بنیاد پر کورونا کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں اورلیبارٹری مالکان اسپتال کے عملے کے ساتھ رازدارانہ طریقے سے عوام کو لوٹنے میں مشغول ہیں۔ اس سارے معاملات میں اسپتال اسٹاف کوراز لیک کرنے سیسختی سے منع کیاگیاہے اور کہا گیا ہے کہ اس بات کو میڈیا سے چھپایاجائے ۔ اسپتالوں میں غیر یقینی صورت حال کے باوجودکورونا کی علامات ظاہرہونے پر مریض اسپتال جانے سے گھبراتے ہیں۔جس کی وجہ سے ٹیسٹ کا عمل سست روی کا شکار ہو رہاہے۔ جس کی وجہ سے حکومت یہ معلوم نہیں کرپارہی کہ کورونا کی تیسری لہر کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ ہمیں ویکسین سرکاری خزانہ لٹائے بغیر مل گئی۔ کیوں کہ اس وقت کورونا ویکسین کی خریداری میںامیر ممالک سب سے آگے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کہ جن کے معاشی حالات بہتر حالت میں صرف وہی ویکسین لے رہے ہیں۔تقریبا54 فیصد امیر ممالک ایسے ہیں جنہوں نے پوری دنیا سے ویکسین کے آرڈر دے رکھے ہیں۔کنیڈا نے اپنی ضرورت سے پانچ گنا زیادہ ویکسین کاآرڈر دے رکھا ہے۔ویکسین آرڈر کی یہ تعداداتنی زیادہ ہے کہ یہ امیر ممالک تین دفعہ اپنے شہریوں کو کورونا سے بچاؤکاٹیکہ لگاسکتے ہیں۔اب تک جتنی بھی ویکسین مارکیٹ میں مشہور ہوئی ہیں وہ سب ان امیر ممالک کی حکومتوں نے خرید لی ہیں اوریہی خریدی ہوئی ویکسین اپنے عوام کو لگائی جارہی ہیں۔ان ممالک نے اپنے عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیااور نہ ہی صحت کو اس غیر معمولی صورت ھال میں تنہاچھوڑا ہے، جبکہ دوسری طرف ایسے ممالک ہیں جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کی معیشت ویکسین خریدنے کی متحمل نہیں۔

ایسے غریب ممالک ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے کسی صحت پروگرام میں شامل ہوجاتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کے غریب عوام کو یہ ادارے کچھ نا کچھ دے دیتے ہیںتاکہ کچھ بھرم باقی رہے۔ایسے غریب ممالک میں صحت کی بگڑتی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہوسکتی ہے۔

پوری دنیا لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ویکسین کی آسان فراہمی اور ہر ایک تک رسائی کو آسان بنانے میں مصروف ہے،تاکہ انسانی جان کو بچایاجاسکے،جبکہ پاکستان میںمفت میں ملنے والی ویکسین کو بحث کا موضوع بناکر ایک دوسرے کے گریبان چاک کیے جارہے ہیں۔ملک میںاس وقت ویکسین کی قیمت 8400 روپے ہے اور دیگر ممالک میں یہی ویکسین صرف 1500 روپے میں مل رہی ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کی صحت و سلامتی کی محافظ ہوتی ہے۔ اس لیے تو آئین کا آرٹیکل38 شہریوں کے حقوق پورے کرنے کا پیغام دیتا ہےاور ریاست کواس بات کا پابند بناتاہے کہ وہ آئین و قانون کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے ہر شہری کو روٹی ،کپڑا ،مکان اور صحت کی فراہمی میں اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھائے۔

اس حوالے سے حکومت پرائیوٹ کمپنی سے جواب طلب کرے۔اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے۔تاکہ ہر متاثرہ مریض تک ویکسین اپنی اصل قیمت میں پہنچ سکے۔ خدارا جاگیں اور آپسی چپقلش بھلاکر کورونا کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہوجائیں، اگر حکومت و اوپوزیشن کی یہی روش برقرار رہی تو ہم لڑتے رہیں گے اور کورونا پھیلتا رہے گا۔