رمضان ایک بابرکت مہینہ

آئیے ہم رمضان کو بہت خلوص کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ یہ وہ موقعہ غنیمت ہے جو قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے  کہ وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجوہات پر غور وفکر کرکے نئی طاقت توانائی کے ساتھاپنے  مقصد حیات کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھ سکیں۔

رمضان کا مفہوم ہی یہ ہے کہ راہ مستقیم کی طلب کریں، موت  کی حقیقت کو یاد رکھنا، ضمیر کی عدالت میں اپنا محاسبہ کرکے سرخروہونا، استقامت اور ایمان کے ساتھ نیکیوں کے حصول کی کوشش کرنا،نجات حاصل کرنا  ہر برائی اور گناہ  سے،   راہ مستقیم کی طلب، راہ  مستقیم وہ  راستہ جو انسان کو اللہ کے قریب کرکے اللہ کی قربت کا احساس بیدار کردے۔

اللہ نےانسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔جس کو قرآن میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہےکہ عبادت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان ہر وقت جائے نماز بچھا کر نمازیں ا ور تسبیح پر اللہ کے نام کا ورد کرتا رہے۔

جس اللہ نےکائنات میں ہزاروں مخلوقات پیدا کی ہیں وہ سب کی سب اسی کی عبادت میں مصروف ہیں اور ان کو کوئی ایک ذمہ داری کو نبھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ انسان کو ان سب پر برتری دے کر علم اور عقل وشعور کے ساتھ کچھ حقوق وفرائض کی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے   اپنے حکامات کی تعمیل  کا حکم دیا اور اپنے ہر حکم پر عمل  کرنے کو عبادت کا درجہ دے دیا اور یہی انسان درحقیقت اللہ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کردینے والا ہی صراط مستقیم پر ہے۔

 کیا آپ رمضان میں اس راستے کی طلب میں اپنے نفس کی حکم عدولی کرتے ہیں؟

موت کی یاد:

          زندگی کے نشیب و فراز میں غم اور خوشی وہ پل صراط کا راستہ ہے جس پر چلنے والے کی معمولی سی غفلت بھی اسے دہکتی ہوئی آگ میں دھکیل سکتا ہے  لہذا وہ اپنے آپ کو ہر ممکن طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے سفر کرتا ہے۔ اسی طرح موت ہی وہ حقیقت ہے جس کی یاد انسان کو خوشی میں بے قابو ہو کر اللہ کی حدود کا تعین کا احساس دلاکر اسے اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتی۔

ضمیر کی عدالت میں پیش:

انسان ظاہری اعمال سے دوسروں کو دھوکہ دے سکتا ہے مگر اپنے اس خالق ومالک کو نہیں جس سے نہ تو دلوں کے بھید پوشیدہ ہیں اور نہ ذہن میں آنے والا کوئی گمان وخیال اور سب سے بڑھ کر انسان کے اندر جو اچھائی وبدی کوجانچنے والا ایک آ لہ اللہ نے رکھا ہوا ہے جسے ضمیر کہتے ہیں اس کا سکون اور اس کی بے چینی انسان کو اس کے صحیح اور غلط عمل کی نشاندہی کردیتا ہے ۔  لہذا روز ضمیر کی عدالت سے حق وباطل کا  موازنہ کرکے جانچنے کا موقعہ ملتا ہے کہ ہم نے کیا کمایا اور کیا کھویا۔کیونکہ ضمیر ایسا ساتھی ہے جو سیدھے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔

 استقامت  اور  ایمان:

             کسی بھی کام میں کامیابی کی شرط یہ ہے کہ اسے مکمل یکسوئی اور تمام تر توجہ کے ساتھ  پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے ۔ اور جب یہی جذبہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نماز اور صبر کی طاقت سے کام لیا جائے تو انسان غیر محسوس طریقے سے برائیوں سے بچنے اور نیکیوں کی طلب کے جذبہ سے سرشارہدایت کے راستے کو اختیار کرلیتا جو اس کی زندگی کا نصب العین ہوتا ہے۔اوراس طرز عمل سے ایمان بھی تروتازہ ہوکر ہر رکاوٹ کو بڑی آسانی سے ہٹا کر اپنا راستہ خود بنالیتا ہے جو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ پہلا کلمہ  ایمان کو تازہ رکھنے کا بہترین ہتھیار ہے۔

 نجات:

       نجات کا موقعہ  ہے گناہوں سےبچنے کا،نجات کا موقعہ  ہے جہنم کی آگ سےبچنے کا،نجات ہے ہر برائی سے آزادی حاصل کرنے کا۔

 جب  انسان سیدھےراستے  کا  مسافر بن کر موت کواللہ کی ملاقات کا ذریعہ سمجھ کرروزانہ خود کو ضمیر کی عدالت میں پیش کرتا ہے تو وہ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو پہچان کراپنی اصلاح کرتا ہے اور پھر نئے جذبہ اور صداقت کے ساتھ استقامت کے ساتھ ہر برائی کا مقابلہ نیکی سے کرتا ہے اور اللہ کی خوشنودی ورضا کو حاصل کرلیتا ہے اور ہر گناہ سے بچ جاتا ہے اور وہ پاک و صاف ہوکر مطمئن اور پرسکون ہوجاتا ہے۔

یعنی رمضان ایسا غسل ہے جو نہ صرف جسم کو صاف رکھنے   بلکہ روح   کو بھی پاک کردیتا ہے بشرطیکہ رمضان کو اللہ کی خوشنودی ورضا حاصل کرنے کی نیت کے ساتھ ہر برائی سے خود کو بچاتے ہوئے اپنے نفس کی خواہشات کو کچل کر اللہ کے احکامات کو فوقیت دیتے ہوئے گزارنے کی کوشش کی جائے تو رمضان کی ساری  برکتیں اور نعمتیں بارش بن کر ایسی برستی ہیں کہ پھر دنیا کی تمام رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں اور انسان کے نزدیک دنیا ایک قید خانہ بن جاتی ہے جہاں وہ صرف اللہ کی حدود میں قید رہ کر خود کو دنیا کی برائیوں سے محفوظ رکھتے ہوئے زندگی گزارتا ہے کہ موت اس کی نجات بن کر اسے اس کے رب کے  سامنے ضرور سرخرو پہنچائے گی۔

یہ رمضان کا تحفہ ہے جو چاہے جیت لے بس جیتنے کا حوصلہ اور کچھ کرگزرجانے کی ہمت کا جذبہ پیدا کرنا اس تحفہ کو حاصل کرنے کی ضمانت ہے۔اللہ ہمیں ایمان کے ساتھ رمضان  کی برکتیں اور نعمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں خود اپنی اصلاح کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور گناہوں سے محفوظ رکھ کر جہنم کی آگ سے نجات دے ۔