غصے کے وقت انسانی رویوں کے اثرات

پڑوس سے شور کی آواز آرہی تھی ، ایسے ایسے الفاظ سننے کو مل رہے تھے کہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ ٹی وی چل رہا ہے یا پھر کوئی فرد غصے میں لغویات بک رہاہے۔ میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ دیکھو یہ  آوازیں کہاں سے آرہی ہیں؟ ؟ بیگم نے کہا آپ کام مکمل کریں اس طرح کی آوازیں آنا روز کا معمول ہے۔

میں اس سوچ میں پڑگیا کیا میں بھی ایسا ہی کرتا، اگر غصے میں ہوتا؟؟

ہم روزمرہ زندگی کے دوران مختلف اوقات میں غصہ محسوس کرتے ہیں۔ غصہ ایک  انسانی ثانوی جذبہ ہے جو ایک ماسک کے طور پر کام کرتا ہے۔ غصے کوانسان اپنے دوسرے جذبات مثلاًتناؤ، مایوسی، بے بسی  وغیرہ کو چھپانے کے لیے ایک ماسک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ہر شخص کو غصہ آتاہے لیکن بے قابو غصہ تشدد میں تبدیل ہو کر جارحانہ رویے کی شکل اختیار کر سکتا ہے، لہذا ایسی صورت حال سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔

عالمی سروے کے مطابق لوگ اب زیادہ ناراض رہتے ہیں ، زیادہ تناؤ میں ہوتے ہیں اور زیادہ پریشان رہتے ہیں اور تقریباً 150 ممالک کے ڈیڑھ لاکھ افراد سے کیے گئے سروے سے معلوم ہوا ہےکہ ہر تیسرا شخص ذہنی تناؤ کا شکار ہے جبکہ ہر پانچ میں سے ایک شخص نے بتایا کہ وہ یا تو اداس ہے یا پھر وہ ناراض ہے ، تاہم پاکستان زیادہ غصہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں دسویں نمبر پر موجود ہے۔

غصہ چونکہ ایک فطری جذبہ ہے لہذا بڑوں کی طرح بچوں میں بھی غصہ پایا جاتا ہے حتی کہ چار ماہ کا بچہ بھی اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے۔بچے اپنے غصے کا اظہار عموماٹینٹرم (کرب) یا دیگر طریقوں سے کرتے ہیں اور بچوں میں غصہ مختلف پوشیدہ مسائل جیسے  طبی و نفسیاتی مسائل اور زندگی کے واقعات و حالات کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

کچھ بچے غیر ضروری جبر، مارپیٹ یا ڈرانے دھمکانے کے سبب خوف کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں مختلف قسم کی چیزوں سے بلاوجہ خوف آنے لگتا ہے۔ جیسے جانور، کیڑے مکوڑے، ناواقف لوگ، بادل کی گرج، اندھیرا یاہوائی جہاز کی آواز وغیرہ۔ کچھ بچوں میں یہ نفسیاتی عارضے اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ وہ بالکل بزدل ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انھیں نیند میں بھی خوف آنے لگتا ہے اور ڈراؤنے خواب ان کی نیند میں مسلسل مداخلت کرتے رہتے ہیں۔اسکول سے ڈر اور خوف بھی اس کی ایک قسم ہے۔ بچہ اسکول جانے سے گھبراتا ہے۔ اسے اپنے اساتذہ اور اسکول کے دوسرے بچوں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے حوصلہ افزائی، پیار و محبت، انعام و اکرام دے کر اسکول میں کچھ وقت گزارنے کے لیے رضا مند کیا جائے۔

ڈراؤنے خواب دیکھنے والے بچوں کو نیند کم آتی ہے۔ وہ بار بار جاگ جاتے ہیں یا سوتے میں بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ نیند سے بیدار ہوکر رونے لگتے ہیں۔ بستر پر اِدھر اُدھر جگہ بدلتے ہیں۔ ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی، بلکہ وہ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں اور بے آرام دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر اچانک صدمہ، ڈر و خوف پر مبنی واقعات پیش آنے یا نیند سے قبل ڈراؤنی کہانیاں سننے، بار بار حوصلہ شکنی، والدین سے جدائی یا مارپیٹ وغیرہ کے سبب بچہ رات کو سوتے میں ڈرتا ہے۔ ایسے بچے کو حوصلہ دینے اور یقین دہانی کروانے کے علاوہ اسے اپنی ذات پر اعتماد بحال کرنے میں مدد دینا چاہیے۔ اگر ماں بچے کو اپنے ساتھ سلائے تو بہتر ہے۔ اس کے ذہن سے ڈر اور خوف کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

بچوں کے ساتھ مسلسل ترش رویہ رکھنا جیسے بدتمیزی، لڑنا جھگڑنا اور کبھی غصے میں کھیلنے سے منع کر دینا۔ اتنے چھوٹے سے بچے میں غصے کی یہ نوعیت کافی عجیب سی محسوس ہوتی ہے ، اس حوالے سے تھوڑی سی تفتیش کے بعد پتا چلا کہ ماں اور باپ دونوں ہی غصے کے بہت تیز ہیں اورذرا ذرا سی بات پر دونوں کے گفتگو کا انداز اور رویہ طیش بھرا ہوجاتا، پھر میاں و بیوی کے آپسی مسائل میں بھی غیظ و غضب کا معاملہ غالب رہتا اور کبھی کبھی غصہ اتارنے کے لیےبچہ ان دونوں کا آسان ہدف ثابت ہوتا تھا۔ یوں غصیلے رویے کو برداشت کرتے اور مشاہدہ کرتے کرتے بچے میں جارحانہ مزاج ڈھلتا گیا اور اس کے اثرات عام زندگی میں شدت سے نظر آنے لگے۔

گھر کے ماحول اور کلیدی افراد میں غصے کی لہریں جتنی زیادہ ہوتی ہیں، بچوں کی سوچ اور عمل بھی اسی تناسب سے سانچے میں ڈھلتا جاتا ہے اور یہ سچ ہے کہ ہم سب ہی کبھی نہ کبھی غصے کا شکار ہو جاتے ہیں ،کبھی ٹریفک میں پھنسنے پر، کبھی دفتر میں ترقی نہ ملنے پر، کبھی کام مقررہ وقت پر نہ ہونے پر یا پھر بچوں کے شور شرابے پر بھی ہم غصیلے ہوجاتے ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ہم سب غصے کی کیفیت میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟

بچے بھی بڑوں کی طرح اپنے جذبات کو چھپانے کےلیے غصے کو ماسک کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسے  کچھ بچے غصہ کو اپنے اوپر طاقتور ہونے کے احساس کے اظہار کےلیے استعمال کرتے ہیں،  مثال کے طور پر وہ بچہ جو سکول کی ریسیس کے دوران کھیل سے باہر رہ  جاتا ہے تو وہ خود کو اکیلا یا ٹھکرایا ہوا محسوس کرتا ہے لہذا وہ خود کو اس تکلیف دہ احساس کی نذر کرنے کی بجائے غصے کا اظہار کرتا ہےاور وہ لاشعوری طور پر اپنے اس نا خوشگوار احساس کو طاقت میں بدل لیتا ہے ۔

بچوں میں (اور بحیثیت انسان بڑوں میں بھی) غصے کی وجوہات کو دو بنیادی گروہوں میں بیان کر سکتے ہیں۔ایک طبی و نفسیاتی وجوہات اور دوسری معاشی و معاشرتی وجوہات۔اگرچہ یہ دو گروہ ہیں مگر ان کے درمیان کوئی مستقل دیوار یا حد قائم کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ اکثر و بیشتر باہم گتھم گتھا ہوتی ہیں۔کوئی بھی چھ سالہ بچہ یہ نہیں سوچتا کہ میں اپنے اس عدم تحفظ کے احساس کو کسی طاقتور ثانوی جذبے سے تبدیل کر دوں گا۔ بچے وہ رویہ اختیار کریں گے جو انہیں اپنے ناخوشگوار احساس کو خارج کرنے میں مدد کرے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو اپنے احساسات کو  مینج کرنے کے طریقے سکھائیں۔ بچے کو جس قدر زیادہ طریقے معلوم ہوں گے اسی قدر بچے کے غصے پر قابو پانے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ غصہ ہمیشہ کسی اکلوتے واقعہ کا ہی نتیجہ نہیں ہوا کرتا۔  ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ بہت زیادہ تھکے ہوئے ہوں ، بھوکے یا بیمار ہوں تو خود کوچڑچڑے محسوس کریں گے۔ایسے بہت سے مشاغل ہیں جو غصے کی شدت اور دورانیے کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ بچے کو غصہ کم کرنے والے مشاغل میں سے مرضی کے مشاغل کا انتخاب کرنے کی اجازت دیجئے۔ یہ بہت اہم ہے۔

درج ذیل مشاغل غصے کو قابو کرنے، تناؤ کو کم کرنے اور صحت مند طرز زندگی اپنانے میں معاون ہوسکتے ہیں۔بچوں کو اپنا خیال رکھنے کی تعلیم دیں، بچے زیادہ آرام کریں، 4 سے 21 برس کے بچوں کو روزانہ10 سے 21 گھنٹے سونا چاہیے ۔ان کے جسم بڑھ رہے ہوتے ہیں لہذا انہیں زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔جو بچے کم سوتے ہیں وہ اپنے رویے اور سکول ورک کو متوازن رکھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔  متوازن خوراک  کھائیں۔خوراک کے ذریعے سے حاصل ہونے والی نیوٹریشن دماغ میں کیمیکل پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔   پانی پیئیں ،پانی کی تھوڑی سی بھی کمی ہمارے جذبات اور ہماری یکسوئی کو متاثر کرتی ہے اورکامیابی کے لیے مناسب ماحول بنائیے۔ بچوں کو غصہ پیدا کرنے والی صورت حال سے ذرا باہر نکلنے کی اجازت دیں۔

جب بچے کو ناپسندیدہ صورتحال سے باہرنکلنے کا موقع مل جاتا ہے تو اسے اپنے بنیادی احساسات کو چھپانے کے لیے غصے کو بطور ماسک استعمال نہیں کرنا پڑتا۔ ہم ایسی باتیں مثلا کون، کیا، کہاں اور کیوں وغیرہ کے بارے میں بعد میں بات کر سکتے ہیں لیکن فی الوقت ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ تناؤ کو کم کیا جائے۔ غصہ عقل پر غالب آ جاتا ہے اور محاذآرائی یا سزا کو بچہ غصے کی حالت میں انتقامی کاروائی خیال کرتا ہے۔ یوں معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے اور مستقبل (طویل مدت) میں ناکامی کا باعث ہو سکتا ہے۔ مناسب اور محفوظ جگہ منتخب کریں جہاں بچہ اپنا غصہ ٹھنڈا کر سکے،محفوظ جگہ کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، تاہم جگہ کا انتخاب کرتے وقت بچے کی انفرادی ضروریات و مسائل کا خیال رکھیں۔

جسمانی مصروفیت غصے کے جذبات سے نبٹنے کا ایک اچھا طریقہ ہے، حرکت سے انسانی جسم میں اینڈوفنز پیدا ہوتے ہیں جو دماغی کیمیکلز میں مثبت تبدیلی لاتے ہیں۔ کھیلنا ، پیدل چلنایا دوڑنا، سائیکل چلانا، رسی کودنا یا پھر  تخلیقی کام مثلاًکلر کرنا، ڈرائنگ کرنا، پینٹ کرنا، تصویروں کی البم بنانا، نظم لکھنا اور کہانی لکھنا گانا گانا ، میوزک بجانا وغیرہ کریں۔

واضح رہے اس قسم کے مشاغل بچوں میں غصے پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں اور انہیں مثبت کاموں میں مصروف ہونے کی ترغییب دیتے ہیں اور جو انہیں معاشرے کا فعال شہری بننے میں ممدو معاون ہوتے ہیں۔

غصہ آنا ایک فطری عمل ہے لیکن اگر ہم مسلسل اس کو دبانے یا چھپانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو یہ ہمارے لیے کئی طرح کے ذاتی اور سماجی مسائل کا سبب بن سکتاہے۔ غصے پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اس کی توانائی کو بہتر اور نتیجہ خیز سرگرمیوں پر لگانے سے بھی ہم اپنی زندگی اور خاندان کو خوشگوار بنا سکتے ہیں اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد جب آپ یا آپ کا بچہ غصے کی کیفیت سے نکل آئے تو  یہ تدابیر کو آزمائیں، غصے اور اس کی وجوہات سے متعلق بات کریں، آپ خود کسی دوسرے فرد سے اس کے متعلق گفتگو کر سکتے ہیں، اسی طرح اپنے بچے کو صحیح سوالات کے ذریعے مشکل موضوعات پر بات کی رہنمائی دے سکتے ہیں۔

پیرنٹنگ یقیناً ایک تھکادینے والا کام ہے اور یہی تھکاوٹ غصے کا ایک بڑا سبب بن جاتی ہے لیکن تھوڑی سی ذہنی اور عملی کوشش سے آپ اس پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے بچوں کے لیے تربیت کا ایک اچھا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔

والدین سمجھ داری سے اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور بچوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھیں اور انھیں انفرادی توجہ دیتے رہیں اور ان کی جائز خواہشات کو پورا کریں، ان میں خود اعتمادی کو ابھاریں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔

حصہ
mm
محمد حماد علی خان ہاشمی نے ذرائع ابلاغ میں جامعہ اردو یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے اور اس کے ساتھ پروڈکشن کے کئی کورسیز بھی کئے جبکہ 12 سال سے صحافتی دنیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پچھلے 3 ماہ سے روزنامہ جسارت ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سینئر کالم نگار، صحافی اور اردو کے استاد مرحوم سید اطہر علی خان ہاشمی کے بیٹے ہیں اور مختلف اخبارات ، میگزینز اور سماجی ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جرنلزم کی دنیا میں قدم سندھی چینل آواز ٹی وی سے کیا اس کے بعد فرنٹیر پوسٹ پر رپورٹنگ بھی کی اور 6 سال سماء ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔