کیا مستحکم خاندان کیلیے قرآن کی تعلیمات ضروری ہیں؟

اللہ نے قرآن میں فرمایا!!!!!!! ترجمہ : اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

یہ صرف ایک آیت کا ترجمہ نہیں بلکہ اللہ نے ہمیں زندگی گزارنے کا وہ سنہری اصول بتادیا جس پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنی ذندگی کودرست راستہ  پہ رکھ سکتے تھے  بلکہ خاندان اور معا شرے میں پھیلنے والے بگاڑ  کوبھی روک سکتے تھے۔  لیکن صد افسوس ہم نے قرآن کو اللہ کا پیغام ہی نہیں سمجھا   بلکہ اس قرآن کو صرف برکت اورثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا۔

یہی وجہ ہے  کہ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملے میں حد سے گزر گئے۔ وہ فیشن ہو یا روایات  ، فرائض ہوں  یہ حقوق، بیٹیوں سے پیار ہویا بیٹوں  سے پیار  جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ  زندگی  کے ہر معاملے میں ہم ذلیل و خوار  ہو کر رہ گئے ، نہ صرف خاندانی نظام  بلکہ معاشرتی نظام بھی تباہ ہو کر رہ گیا۔

حد سے گزرنا کیا ہے؟  مطلب انتہاپسند ہونا، کسی بھی معاملے کو اس کی حدود سے زیادہ جگہ دینا ، سادہ الفاظ میں ایک جملہ میں کہا جا ئے تو  انتہا ہ پسند ہونا۔ ویسے تو ہم سب انتہاپسندی کو بہت ہی برا سمجھتے ہیں۔  مگر شاید ہم سب ہی انتہاپسند ہیں۔

اولاد کی مثال لےلیں اس معاملے میں بھی ہم انتہا  پسندی سے کام لیتے ہیں حالانکہ  لڑکا اور لڑکی  دینے والا  صرف اور صرف  اللہ  ہے لیکن آج  بھی ہمارے  بہت سے خاندانوں میں لڑکوں  کو باعث فخر اور لڑکیوں  کو باعث شرمندگی سمجھا جاتا ہے  یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں اطراف سے انتہاپسندی کی طرف  چلے گئے ہیں۔ یعنی  جن کے پاس لڑکے ہیں وہ ان کو  وہ اس قدراہمیت  دیتے ہیں کہ وہ خودکوکوئی آ سمان  سے اتری ہوئی  مخلوق سمجھتے ہیں۔

 جس کے  نتائج یہ ہوتے ہیں  کہ وہ نہ تو تعلیم پر کوئی توجہ دیتے ہیں ، نہ کسی کام میں دل لگاتے ہیں  اور نہ کسی زمہ داری  کواٹھانے کے قابل ہوتے ہیں وہ ایسی خود پسندی کاشکار ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے سوا کوئی نظر نہیں آتا وہ ماں باپ  کو بھی خاطر میں نہیں لاتے  پھر جب والدین کو اپنے اس بے جا لاڈ پیار کا احساس ہو تاہے ،اس وقت تک  سدھار کا وقت گزر چکا ہو تا ہے اور اللہ نے مرد کو  جس خوبی کی وجہ سے کفیل کا درجہ دیا ہے اس میں وہ صلاحیت   پیدا ہی نہیں ہونے پاتی  کیونکہ اس کو تو سب کچھ پلیٹ میں سجا کر اس کے والدین محض لڑکا ہونے کی وجہ سے اسکے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور وہ سمجھتا کہ ساری عمر اس کولڑکاہونےکا advantage ملتارہے گا۔

 یعنی اللہ نے  جس کو کفیل بنانے کے لیے پیدا کیا تھا  کہ وہ  ایک خاندان کی کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے والا  بنے گا جس سے  ایک مظبوط اور خوشحال اسلامی  خاندان کی بنیاد پڑے گی اس کو ہم نے اپنی خواہشات  اور بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے  معاشرے کا ایک  ایسا فرد بنا دیا کہ پورے خاندان کا بوجھ  اٹھانا تو دور کی بات  وہ اپنا  بوجھ  اٹھانے کے قابل بھی نہیں  رہا۔

دوسری طرف جن کے ہاں اللہ کی رضا سے لڑکی  پیدا ہو گئی  ان کو یہ فکر لاحق ہو جا تی  ہے  کہ ہم اپنے  خاندان میں لڑکی کے  والدین ہونے کی وجہ سے  کسی سے پیچھے نہیں رہے جا ئیں اس  جستجو میں وہ اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ بیٹیاں کسی بھی میدان میں کسی سے پیچھے نہیں رہ جا ئیں۔

 یعنی  ان کو تعلیم میں آگے لے جانے کی جدوجہد کے ساتھ وہ ان کوکسی بھی طرح کی مصلحت پسندی نہیں سکھاتے – ان کو لڑکوں کے برابرکرنے کے لیے  لباس سے لیکر حکم چلانے کی عادت تک اور اپنی رائے کواہمیت دینے سے لیکر اپنا فیصلہ سنانے کی عادت تک  ایسا پختہ کر دیتے ہیں کہ وہ  اپنی فطری نرمی ، ملاحت،راضی بہ رضارہنے کی عادت ، اپنے آپ کوچھپا کر رکھنا اور  بڑوں کی مرضی پر چلنے کی  عادت جواللہ   نے عورت میں  ودیعت کی ہے اس سے  کوسوں  دور ہو جاتی ہیں۔

جو ایک خاندان کی بنیاد رکھنے کے نہایت ضروری ہے کوئی مانے یانہ مانے عورت کی انہی خوبیوں کی وجہ سے  عورت مکان  کوگھر  بناتی ہے ورنہ  زندگی تو جانور بھی گزار لیتے ہیں  بچے ان کے بھی ہوتے ہیں  مگر جن خوبیوں کی وجہ سے اللہ نے انسان کواشرف المخلوقات کادرجہ دیا افسوس آج ہم نے ان اقدار  کوبالائے طاق رکھ دیاہے۔بظاہر تو یہ بات اتنی بڑی نظر نہیں آتی لیکن اگر ہم اس کے خوفناک نتائج  پر غور کریں  تو شاید  اپنی انتہا پسندی سے باز آجائیں۔

اللہ نے مرد کو کفیل اور کو خاندان کی تربیت کا ذمہ دار بنایا ہے  جبکہ اس طرح کی تربیت  کے بعد نہ تو مرد کفیل بنتے ہیں  اور نہ  ہی عورت بہترین  تربیت  کرنے والی، کہیں عورت پر کفیل بننے کے ساتھ ساتھ بچوں  کی تربیت کی ذمہ داری اور امور خانہ داری کی ذمہ داری اس طرح ڈال دی جاتی ہے کہ عورت کو زندگی نعمت کی بجائے زحمت لگنے لگتی ہے اور یہ ہی  وہ وقت ہوتا ہے جب چند مفاد پرست لوگ عورت کوآزادی کے نام پر سیدھی راہ سے بھٹکا کر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتے ہیں یہ حال صرف میاں بیوی کے رشتہ میں  نہیں بلکہ عورت مرد کے ہر تعلق میں  پیدا ہو رہاہے پھر چاہے وہ  رشتہ بہن بھائی  کا ہو  یا ماں بیٹے کا۔

 کوئی بھی ذرا سا رک کر یہ نہیں سوچ رہا  کہ اس کے نتیجہ میں  جو بے راہ روی ، بے  چینی، گھٹن  اور بہت ہی پیارے اور  محترم رشتوں  میں دوری ، نفرت  ،  دوسرے کے حقوق  کا خیال کئے بغیر  اپنے لئے عائد کردہ فرائض کو یاد رکھنے کا  یہ سلسلہ نہ صرف ہمارے  خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کاباعث  بن رہا بلکہ  ہمارے معاشرے  کوبھی   جونقصان  پہنچ رہا اس کا  کوئی  ازالہ نہیں ہے۔

کبھی اس بھاگتی ہوئی زندگی میں رک  کر سوچئے  تو شاید  آپ  میرے  نظریئے کے قائل ہو جائیں کہ یہ سب اس وجہ ہورہا ہے کہ ہم نے اللہ کی بنائی ہوئی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ جس مرد کوگھر اور خاندان کا کفیل ہو ناچاہیئے  تھا وہ تو کبھی اپنی ادھوری تعلیم ، کبھی اپنی غلط صحبت اور کبھی اپنی غلط تربیت  کی وجہ سےاپنی ذمہ داریوں   منہ موڑ  کر انجان بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس عورت  جسے اللہ نے گھر اور خاندان کا امین بنایا ہے وہ کبھی اپنی ڈگری کے استعمال کی وجہ سے ، کبھی اپنے والدین  کی ذمہ داریاں کم کرنے کے لئے اور کبھی اپنی ہی شادی پر ہونے والے اخراجات اور جہیز  کے حصول کے لئے گھر سے باہر  نکل کھڑی ہوتی ہے اور اکثر اوقات  آہستہ آہستہ  وہ تمام  مقاصد  تو کہیں  پیچھے رہ جاتے ہیں  اور معاشرے  کے بدبو دار افرادان کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کر کے  ان کونام نہادآزادی   کی دو  ڑ میں شامل کر دیتے ہیں اور وہ آزادی نام پر ایک جبری مشقت میں مبتلا کر دی جاتی ہیں یا بے راہ روی کا شکار ہو کر  فیشن اور آزادی  کے نام پر  شیطانی خیالات کے حامل مردوں کی تفریح کا سامان بن جاتی ہیں۔

آج کا بگڑا ہوا  بدبودار معاشرہ انہی تبدیل شدہ حقائق کا نتیجہ  ہے جو’ہم نے اللہ کے قائم کی ہوئی حدود میں کی ہیں یعنی مرداور  عورت کا اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا مقام  جس کو ہم نے اپنے مفاد اور مرضی کے مطابق  تبدیل کر دیا ہے  جبکہ آج بھی جن اسلامی  گھرانوں میں ان  حدود کا خیال رکھا جاتا ہے  ، جہاں  مرد اور عورت کو اللہ کے مقرر کئے ہوئے الگ الگ میدان عمل  میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کاموقعہ دیا جاتا ہے  وہاں زندگی چین ہ سکون لکھتی ہے۔

خدا کے لئے اب بھی وقت ہے اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق  مرد اور عورت کو اپنے اپنے مقام اور مرتبہ پر  رہنے دیں  اور خاندانی نظام و معاشرےکو بچانے کے ساتھ  ساتھ اپنے دین و مذہب کی بھی حفاظت کریں۔