انتظامی معاملات پر اعتراض

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اپنی سو نیکیاں یا اچھائیاں بھول جائو لیکن ایک غلطی کو کبھی نہ بھولو۔ پچھلے ہفتے مجھے “ایس۔ آئی۔ یو ۔ ٹی”جا نا پڑا ۔ زندگی میں پہلی دفعہ میں نے مہینے بھر کی کاوشوں ، ٹیسٹوں اور ورزشیوں اور دوائیوں کے استعمال کے باوجود میرے ڈاکٹر صاحب نے مجھے ایس ۔ آئی ۔ یو ۔ٹی جانے کا مشورہ دیا تا کہ مجھے ڈاکٹر دیکھ کر دوا دیں لہٰذا میں صبح تقریباً پونے آٹھ بجے وہاں پہنچ گئی ۔

ایک جم غفیر دیکھ کر تھوڑا گھبرائی پھر انہوں نے لائن میں لگ کر جانے کے بعد بتا یا کہ آج یہاں او۔ پی ۔ ڈی نہیں ہے ۔ ایمرجنسی میں 14نمبر میں ہے آپ ادھر چلے جائیں پھر ہم وہاں سے دوسری جگہ گئے وہاں تو اس سے بھی زیادہ رش تھا اور شور بھی تھا نئے آنے والوں کیلئے الگ سے پرچیاں بن رہی تھیں ۔ میں نے بھی نمبر لیاپھر بتایا کہ وہاں انتظار کریں نمبر پکارنے پر کمپیوٹر پر رجسٹریشن ہوگی تقریباً ایک گھنٹے بعد نمبر پکارا گیا وہ بھی رجسٹریشن کروانے کے بعد اور 14نمبر کمرے میں بھیجا گیا پڑوسی ساتھی نے بتایا کہ تقریباً 500عورتوں اور 500 ہی مردوں کا روزانہ معائنہ ہوتا ہے ۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی صرف مریض اور ایک اس کا ساتھی وہ بھی عورت ہو تو اسکے ساتھ عورت ہو ، مرد ہو تو مرد ساتھی ہو مگر اندر صرف مجھے اکیلے ہی جانا پڑا۔ غیر ضروری لوگوں کو بھی باہر دور کھڑے رہنا پڑا ۔ مائیک پر ٹیسٹ کروانے والوں کے نام پکارے جاتے تھے اور صرف وہی لوگ جاتے تھے جبکہ ایک ایک کمرے میں چار چار ڈاکٹرز چار چار مریضوں کو د یکھ رہے تھے ۔ پہلے ڈاکٹر نے مجھے دیکھا اور چند ٹیسٹ لکھ کر دیئے اور کہا کہ سر کو یعنی بڑے ڈاکٹر کو دکھالیں ۔

میں ان کے پاس گئی اتفاقاً انہوں نے کسی دوسرے مریض کو لے لیا اور مجھ سے کہا کہ آپ یہ ٹیسٹ کروا کر آئیں میں ذرا جب تک اس مریض سے فارغ ہوجائوں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میںنیچے آئی یورین ٹیسٹ کیلئے مجھے نہیں معلوم وہاں اور باتھ روم میں کموڈ ہے یا نہیں لیکن انتہائی تنگ جگہیں جہاں جانا بھی مشکل تھا ڈبلیو سی میں تو بہت ہی دشواری پیش آئی بہرحال وہاں ضرور لیڈیز کیلئے کموڈ ہونا چاہئے اور مردوں کیلئے بھی کیونکہ جوڑوں اور گھٹنوں کے درد والے کموڈ کے علاوہ کہیں چین نہیں پا سکتے لہٰذا مخیر حضرات اور انتظامیہ تعاون کریں یہ نہ احتجاج ہے نہ شکایت صرف التجا ہے درخواست ہے لیکن مجھے جس بات پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ جب میں طویل انتظار کے بعد الٹرا سائونڈ کیلئے بلوائی گئی تو میں نے وہاں دو لیڈی ڈاکٹرز اور دو میل ڈاکٹرز دیکھے جو تمام لیڈیز کا الٹرا سائونڈ کر رہے تھے ۔ مزید مریض اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔

ایک لیڈی ڈاکٹر چنے بھونے مکی کا ہلکا ناشتہ کرتے ہوئے فون پر بات کر رہی تھی میں نے موقع پاکر اس سے پوچھا کیا ادھر لیڈی ڈاکٹرز نہیں کیونکہ اتفاق سے میرے سامنے صرف دو میل ڈاکٹر دو خواتین کا الگ الگ الٹرا سائونڈ کر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک مریضہ نے شرعی پردہ تک کیا ہوا تھا بہت خوفزدہ تھی پریشان تھی آنکھ بھی نہیں ملا رہی تھی ۔ اس سے میں نے بہت اچھی طرح کہا میرا الٹرا سائونڈ آپ کرینگی؟ پلیز! اس نے کہا ضرور اور اس نے منٹوں میں میرا الٹرا سائونڈ کردیا مگر مجھے اس پر سخت اعتراض ہے کہ یہاں پر دو لیڈی ڈاکٹرز کو مزید کیوں نہ رکھا گیا کہ کھلم کھلا ینگ میل ڈاکٹرز خواتین کو جانچ رہے ہیں ۔ اتنی تو حیا سب میں ہی ہونی چاہئے کہ مرد اور عورت دونوں گنہگار ہورہے ہیں ۔ اللہ تو نیتوں کو جانتا ہے مگر وہ میل ڈاکٹرز بھی اتنے مجبور نہیں نہ خواتین مریضہ تنگی کا شکار کہ کوئی عذر پیش کرسکیں بہرحال ہے یہ قابل اعتراض بات ہے جس پر مجھے اعتراض ہے جسے فوراً حل کیا جانا چاہئے ۔

باقی سارے کام ٹھیک تھے راستے اتنے تنگ تھے کہ میل اور فیمیل مریض ایک دوسرے سے ٹکرانے پر مجبور تھے ۔ رش بہت زیادہ تھا ۔ کام کافی پھرتی سے ہورہا تھا مگر ایک یہی حصہ مجھے بہت برا لگا ۔ پورے دن تو کیا آج تک میرے ذہن میں وہ ڈاکٹرز اور خواتین مریضہ گھومتی رہی کہ کیا ہو گیا ہے کہ مسلمان اتنا ایمان کا کمزور ہوگیا ہے کہ حیا اور نسوانیت کا لحاظ اور رب کی پکڑ بھول گیا ہے ۔ پردیس میں ہمارے مسلم بھائی مجبوری کا کا بہانہ کرکے میل ڈاکٹرز سے ڈیلیوریاں تک کروانا عار نہیں سمجھتے ۔ تو اب اس اسلامی مملکت میں بھی یہ حال ہو گیا ہے ۔ لوگ مردوں سے بال کٹوانا میک اپ کروانا برا نہیں سمجھتے اور نہ مرد! نہ عورت! ان حرکات سے باز آتے ہیں ۔ یہ تو صرف ایک الٹرا سائونڈ لیب کی بات تھی ہمارے ہاں ہونے والے تمام ایسے امور ورزشیں، فزیو تھراپی ، کھیل دیگر دوسرے عوامل سب میرے لئے قابل مذمت اور قابل اعتراض ہیں کیونکہ جب حیا نہیں تو جو چاہے کرو ۔

ایک ٹیسٹ ہوتا ہے ٹانگوں کی نسوں کا الٹرا سائونڈ کروایاجا نا وہاں بھی میں نے میل ڈاکٹرز کو دیکھا ہے ۔ ہمیں ہی ہوش کے ناخن لینے چاہئے ہیں اور اس شعبے میں ایسی خواتین تربیت کرکے لانی چاہئیں تاکہ اس طرح کے کام نہ ہوسکیں ۔ برائی کو اتنا بڑھا دو کہ وہ برائی نہ لگے ۔یہ ترقی نہیں بہت بڑا دھوکا ہے جولوگ خود برائی کرتے ہیں جو سہتے ہیں جو تماشائی ہوتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے تو پھر وہ کیسے مسلمان؟ معروف عمل کریں منکر کو روکیں ۔ مطلب نہ تو کریں نہ کرنے دیں بلکہ روکیں ۔ اس لئے جو میں نے نوٹ کیا تو اعتراض کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام پڑھے لکھے لوگوں کو ڈاکٹرز کو جو انہیں ملازمت دیتے ہیں انہیں اور دیگر متاثرہ لوگوں کو محض شیطان مردود کے شر سے بچا کر آپ کی پناہ میں دینا اور خود رہنا چاہتی ہوں ۔ اتنا اچھا ادارہ مگر ذرا سی یا ایک آدھ غلطی کرکے دونوںجہاں کیلئے غیر مئوثر کیوں ہو؟ اللہ ہم سب کو صحیح معروف اعمال کہنے سننے سے زیادہ کرنے کی توفیق دے ۔ آمین ۔ واقعی دعائیں کیا حصار ہیں رب کا !سبحان اللہ کہ میں بری گھڑی سے، بری جگہ سے ،برے نظارے سے، بڑے سانحے سے ، بڑے حادثے ، بری موت، بری بیماری سے ہر برائی سے اے رب پناہ چاہتی ہوں ۔ آمین