غلامی سے نجات کا ذریعہ

   جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہم سے کبھی بھی ناراض نہ ہو چاہے اس کے لئے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑ جائے یہاں تک کہ اپنی پسند اور ناپسند کا بھی خیال نہیں رکھتے  ہر وقت یہی دھن رہتی کی اسے کیا پسند ہے ؟ اسے کیسے خوش کیا جاسکتا ہے؟ اور وہ ہی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ وہ خوش رہے بے شک اس کے لئے اپنی پسند کو نظر انداز کرنا پڑے اپنی ناپسندیدہ چیز کو چھوڑنا پڑے  بے شک وہ ہماری کسی خواہش کا احترام کرے یا نہ کرے۔

                              کیا کبھی ہم یہ سوچتے  ہیں کہ ایک ذات ایسی ہے جو ہم کو ہم سے زیادہ چاہتی ہے اور ہمارے مانگنے سے   پہلے ہی ہمیں سب کچھ دے دیتی ہے اور ہر لمحہ ہماری ہی طرف متوجہ رہتی ہے ہم غلطی کریں تو وہ نظر انداز کر کے اصلاح کرنے کا موقع دیتی ہے اور کچھ اچھا کریں تو اپنی نعمتوں سے دامن بھر دیتا ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ  نہیں ہوتی ہم زبان سے اس کی محبت کا دعوہ کرتے ہیں مگر عمل کرنے کے لئے وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ فرصت ملے گی تو اس کی بات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے  ، سہولت اور آسانی کے مواقع میسر ہوئے تو ضرور عمل کریں گے ابھی تو اس کی فکر ہے جسے دل چاہتا ہے جس کی محبت میں دن رات گم رہتے ہیں۔

    درحقیقت ہم اس اللہ سے  محبت کا زبانی دعوہ تو کرتے ہیں مگر دلوں میں طاغوت کی حکمرانی  ہے جو کسی اور طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیتا جواپنی غلامی سے نجات ہی نہیں دیتا کہ اس سچی اور حقیقی محبت کرنے والے کی محبت کو سمجھنے کا موقعہ ملے اور اس کی خواہش کے مطابق   خود کو ڈھالنے کا جذبہ بیدار ہو  پھر دیدہ دلیری کہ اسی ذات سے شکوہ شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ توہم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ  ہماری ہر غلطی کو نظر انداز کر کے  ہماری سب کوتاہیوں کے باوجود اپنی نعمتوں اور رحمتوں کے سائے میں رکھ کر نظر نہ آنے والی آفتوں اور مصیبتوں سے بچائے رکھتا ہے جس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔

 ہم اس کی خوشی کے لئے خود کو کیوں نہیں بدلتے؟ اس کو راضی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اس کی خواہش کا احترام کیوں نہیں کرتے؟  کیونکہ ہم اس سے محبت کا دعوہ صرف زبانی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو اس کی خاطر اپنے نفس کے خلاف جنگ کیوں نہیں کرتے جو ہمیں اس کے راستے پر چلنے سے روکتا ہے کہ یہدشوار گزار راستہ ہے جس پر  چلنے والے کو اپنی مرضی اپنی خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا  تو پھر اس سے محبت کا دعوہ ہم کیسے کرسکتے ہیں جب اس کے لئے وہ نہیں کرسکتے جو ایک عام شخص کی محبت کے لئے سب کچھ قربان کر دینے کا حوصلہ کرلیتے ہیں جبکہ اس کی محبت کسی بھی لمحے بدل سکتی ہے جو اپنے فائدے کے لئے آپ کی پرواہ بھی نہیں کرے گا۔ جبکہ وہ جو ہم کو ہماری سوچ سے بھی زیادہ بڑھ کر چاہتا ہے اس کا رنگ اتنا پیارا اور پائیدار ہے کہ پھر کوئی اور رنگ اپنا اثر نہیں دکھاسکتا ہے۔

 وہ رنگ جو ایک معمولی انسان کو بھی معتبر بنا دیتا ہے جو اپنے ہر عمل پر خوشی کے ایسے جذبہ سے ارشاد ہوتا ہے کہ پھر کوئی دوسرا جذبہ اس پر حاوی ہی نہیں ہوتا اور وہ دنیا کی عارضی خوشیوں اور سازو سامان سے بے نیاز ہوکر اللہ کے رنگ میں ایسا رنگ جاتا کہ اس کی اپنی ذات گم ہو جاتی ہے اور صرف اور صرف اللہ ہی کا ہوکر رہ جاتا ہے جو انسانیت کی معراج ہے اور وہ ہی اصل مقام اور ابدی زندگی کی کامیابی ہے جو اللہ کے رنگ ہی کا کمال ہے۔

اللہ سے محبت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے رات کی تاریکی میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائے اور اُس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے دعائیں کریں اور اپنی بخشش مانگے۔انسانوں کی غلامی سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس ذات کے لیے قربان کردے جو سارے جہان کا مالک ہے۔