ذمے داری کی بوری

“اہل” کے کندھے پر ذمے داری کی بوری تھی اورمنتقلی کا وقت قریب آ رہا تھا۔ اسے وقت سے پہلے ایک اہل کندھے کو تلاش کرنا تھا اور یہ بوری اس کے کندھے پر رکھ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہونا تھا۔ ”نا اہلوں“ کی فوج اس بوری کو اپنے کندھے پر رکھنے کے لئے بے قرار تھے۔ جو اس بوری کو حاصل کرے گا عزت،شہرت اور رتبہ اس کے نصیب میں ہوگا۔ کسی ایک کا کندھا اس وزن کو اٹھانے کے لئے منتخب کرنا آسان کام نہ تھا۔

کسی نااہل کا کہنا تھا ”سرکار آپ اس بوجھ کو اپنے کندھے سے اتار کر کسی بھی کندھے پر رکھ دیں اور اپنے کندھے کو اس بوجھ سے آزاد کر دیں اور اپنی زندگی کو سکون دیں آپ کسی اہل کی تلاش میں اپنا کیوں وقت ضائع کرتے ہیں اور اہل کی تلاش میں آپ کو کیا فائدہ حاصل ہو گا آسان کام کو اپنے لئے مشکل کیوں کر رہے ہیں“۔ اس کی بات پر “اہل“ غصے میں بولا “تم کیا چاہتے ہو میں ان لالچیوں کے کندھوں پر یہ بوری لاد دوں جو اپنا وزن اٹھانے کے قابل نہیں وہ یہ وزن اٹھائیں گے تمہیں کیا لگتا ہے یہ بوری صرف اٹھا لینے سے بات بن جائے گی تمہیں نہیں پتا یہ بوری کسی نااہل کے کندھے پر چلی گئی تو کیا ہوگا”۔”نہیں سرکار” نا اہل بولا۔

یہ ذمے داریوں کی بوری کسی نا اہل کے کندھے پر ڈال دی گئی تو نظام تباہ ہو جائے گا۔ زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی، حالات مشکلات کے طوفانوں سے ٹکرا جائیں گے، یہ بوری نااہل کے لئے مذاق ہو جائے گا وہ جس ذمے داری کو قبول کرنا چاہے گا کرے گا جو نہیں کرنا چاہے گا وہ اس بوری سے نکال کر پھینک دے گا، نااہل کبھی تکلیف کو سمجھ نہیں پائے گا اور تکلیفوں کی بارش ہو گی، اس بوری میں دردمندوں کا سہارا بھی ہے بتاؤ  کوئی نااہل میں اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی کا درد سمجھ لے وہ اپنا درد سمجھ لے بڑی بات ہے، کیا تم جانتے ہو جب بھی یہ بوری کسی نا اہل کے کندھے پر گئی دن مہینوں میں مہینے سالوں میں اور سال صدی کے برابر ہو گیا اور اس نااہل کے کے لئے بس آخر میں صرف بددعاؤں کا تحفہ ہی ملا اور تمہیں پتا ہے مجھ سے پہلے بھی یہ بوری کسی نااہل کے کندھے پر تھی جب بدعاؤں نے اس کا جینا حرام کیا تو اس نے یہ بوری اٹھا کر پھینک دی تھی اور کوئی اس کو اٹھانے کو تیار نہ تھا اور تباہی معاشرے کا نصیب بن کر رہ گئی تھی، کئی سال دعاؤں میں ہاتھ کھڑے رہے اور کسی نے آکر یہ بوری میرے کندھے پر ڈال دی اور نصیحت کی کہ اس بوری کی عزت کرنا اور وقت سے پہلے اس کا اہل چن لینا اور تم سمجھتے ہو میں یہ ایسے ہی کسی کے کندھے پر رکھ دوں۔

نااہل نے سنا تو خاموشی سے وہاں سے کھسک گیا۔اہل نے سارے ہجوم کو اکھٹا کیا اور کہا کیا تم اس بوری کو اٹھانا چاہتے ہو تو تمہیں اس بوری کا اہل ہونا پڑے گا۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم اہل ہونے کے لئے تیار ہیں بس آپ یہ بوری ہمارے کندھے پر رکھ دیں۔ اہل نے کہا تو بس آپ سب وقت کی چکی سے گزرنے کے لئے تیار ہو جائیں

جیسے ہی سب نا اہلوں نے وقت کی چکی کا نام سنا تو توبہ توبہ کرتے آدھے سے زیادہ نااہل وہاں سے غائب ہوگئے۔ اہل کا کہنا تھا ”اس بوری کا اہل بننے کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں برداشت، ظرف اور عدل اور یہ سب وقت کی چکی تمہیں سیکھائے گی ، باقی جو بچ گئے تھے ان کو وقت کی چکی میں داخل کر دیا گیا اور چکی چلا دی گئی پہلے مرحلے میں ان کو درد، غم، غصے اور تکلیف سے گزارا گیا اور ان کے سامنے سارے غم درد اور تکلیفیں رکھ دی گئی مگر کوئی غم کے ہاتھوں مارا گیا تو کوئی غصے میں آ کر اپنا اور دوسروں کو حال خراب کر گیا اور کوئی اپنی تکلیف میں دوسروں کو تکلیف پہنچا گیا اور جو آدھے بچ گئے تھے ان کو تحفے میں صبر دیا گیا اور اگلے مرحلے میں داخل کر دیا گیا۔

دوسرا مرحلہ ظرف کا تھا اس میں ،کسی کو عطا کرنا،حوصلہ رکھنا اور محبت کرنا تھا ان سب کے سامنے خوشیاں دولت اور سکون رکھ دیا گیا اور یہ ان کو اپنے آپ سے بے گانہ کر گیا کوئی سکون میں رہ کر اپنے آپ کو عاقل سمجھ بیٹھا اور ادھر ہی رک گیا، کوئی دولت سمیٹ کر اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ گیا اور کچھ خوشیوں میں ماضی اور مستقبل سے لاپرواہ ہو گئے کچھ جو گنتی کے رہ گے تھے۔ انہوں نے ہر حال میں حوصلہ رکھا ،اپنے میں سے دوسروں کے لئے حصہ رکھا اور محبت کو زندگی کا حصہ بنا لیا ان کو صبر کے ساتھ تحفے میں علم دے دیا گیا۔

اگلا مرحلہ عدل کا تھا اس مرحلے میں اپنے ساتھ عدل کرنا تھا اس میں قربانی، فیصلہ اور دوسروں کا احساس تھا۔ یہ مرحلہ سب سے مشکل تھا اس میں ان سب کے سامنے اپنی ذات رکھ دی گئی اور ان سب نے اپنی ذات کو دوسروں پر ترجیح دے دی ان سب نے اپنے حق میں فیصلہ کیا وہ اس مرحلے کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھے جو صبر اور علم ان کو تحفے میں دیا تھا وہ ان کے لیے غرور بن گیا مگر ایک نااہل ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھا اس نے اپنی ذات دوسروں کے لئے قربان کر دی اس نے دوسروں کے حق میں فیصلہ کیا اور اپنے اندر احساس کی شمع روشن کر دی سب اس کی ہمت کو دیکھ کر حیران تھے تحفے میں جو صبر اور علم اس کو دیا اس نے اس کو کام میں لاتے ہوئے اپنے اندر عاجزی پیدا کی اور اس کو تحفے میں اہل کا تمغہ دے دیا گیا۔

ایک بوڑھے اہل نے ذمے داری کی بوری بخوشی اپنے کندھے سے اتار کر دوسرے اہل کے کندھے پر رکھ دی اور کہا ”اے میرے جانشین یہ بوری تمہارے پاس وقت کی امانت ہے اس کو اپنی ملکیت نا سمجھنا اس بوری کی اہمیت کو سمجھنا تم وقت کی چکی سے گزر کر اس بوری کے اہل بنے ہو امانت واپس کرنے کے لئے ہوتی ہے اگر خیانت کی تو یہی بوری تمہارے گلے میں ڈال کر پھانسی دے دی جائے گی جاؤ اپنی اہلیت سے دوسروں کے زندگی میں روشنی بنو۔