پاکستان سپر لیگ (6)؛ میدان میں یا سڑکوں پر؟

ایک ایسا بھی وقت گزرا ہے جب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ ایک خواب بن چکا تھا جس کا سہرا ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے سر سجتا ہے جس کی کاوشوں اور ایک انتہائی خوفناک عملی کارنامے کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی مشکلوں سے نکلنے کا ہنر بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کا ہنر بھی پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا اسکی گواہی بھی بھارتی فوج سے لی جاسکتی ہے۔پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ مکمل تسلی اور ہر ممکن حفاظتی اقدامات کی بدولت پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا سلسلہ مختلف اقساط میں شروع ہوا۔جہاں قانون نافذ کرنے والوں کی قربانیاں اس عمل کو مکمل کرنے میں نمایاں ہیں وہیں پاکستان کرکٹ بور ڈکے سابق چیف نجم سیٹھی صاحب کا کردار بھی بہت اہم رہا۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ اپنے اداروں کی مشاورت اور باہمی ہم آہنگی سے ناممکن کو ممکن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے (اسی کی بنیاد پر اقبال ؒنے لکھا کہ یہ مٹی ذرا نم ہو تو بڑی ذرخیز ہے ساقی)۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی میں پاکستان سپر لیگ کا کارنامہ نمایاں ہے جس میں شامل بین الاقوامی کھلاڑیوں نے پاکستان کی خدمات کو نا صرف سراہا بلکہ پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کیلئے آئے۔ ایک اضافی بات کرتا چلوں کہ لوگوں کی اچھائیوں کا تذکرہ کرتے رہنا چاہئے اس سے اپنے اندر بھی اچھائی کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے اورمتذکرہ شخص میں بھی مزید اچھائی کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ کرکٹ کی تقریباً مکمل بحالی ہو ہی جاتی اگر یہ کورونا درمیان میں نا آتایا پھر کورونا کا آنا بھی اچھا ثابت ہوا کیوں کہ بغیر تماشائیوں کے حفاظتی جھنجھٹ سے کسی حد تک جان چھوٹ جاتی ہے۔

پاکستان میں بہار کے موسم کا آغاز تقریباً فروری کی بیس تاریخ سے ہی شروع ہوتا ہے شائد اسی لئے رنگا رنگ موسم میں رنگوں اور روشنیوں سے بھرپور کھیل کا بھی آغاز کیا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح بیس فروری کی تاریخ پاکستان سپر لیگ ۶کے افتتاح کے لئے چنی گئی ہے اور افتتاحی تقریب عروس البلادشہر کراچی میں منعقد ہونی ہے اسکے بعد تقریباً سات مارچ تک کل چونتیس میں سے بیس مقابلے کراچی میں ہی منعقد ہونے ہیں، باقی کے چودہ مقابلے جن میں فائنل مقابلے بھی شامل ہیں زندہ دلانوں کے شہر لاہور میں منعقد ہونگے۔ دنیائے کرکٹ میں یہ دونوں شہر اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بیس فیصد خوش نصیب تماشائی ان مقابلوں کے عینی شاہدین بنیں گے۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے دوسرے دور کا صحیح معنوں میں آغاز جنوبی افریقہ کی ٹیم کا دورے سے ہوا ہے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم آزمائشی کرکٹ کی فہرست میں پاکستان آنے سے قبل پانچویں نمبر پر تھی لیکن اب پاکستان نے فہرست میں ترقی پاتے ہوئے پانچویں جگہ حاصل کرلی ہے اور جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان سے طے شدہ دو آزمائشی مقابلوں میں شکست کے باعث تنزلی کی وجہ سے چھٹے نمبر پر پہنچ گئی ہے۔ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں اس شکست کا کسی حد احاطہ کیا تھا جس کا حوالہ دیتے چلیں اور وہ یہ کہ جنوبی افریقہ کی طاقتور ٹیم ایک قدرے کمزور ٹیم سری لنکا سے مقابلے جیت کر پاکستان پہنچی جسکی وجہ سے انکا اعتماد کچھ زیادہ ہوا ہوگا جس کا انہیں نقصان اٹھانا پڑا جبکہ پاکستان کی ٹیم ایک مضبوط ٹیم نیوزی لینڈ سے نیوزی لینڈ (شدید موسم)میں شکست کھا کر پاکستان پہنچی جسکا انہیں بہت فائدہ پہنچا اور اپنے سے بہتر ٹیم جنوبی افریقہ کو شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یقینا اب بین الاقوامی مقابلوں کا سلسلہ انشاء اللہ چلتا رہے گا۔ یکے بعد دیگرے ٹیموں کی آمد ورفت بحال ہوجائیگی اور ایک بار پھر کرکٹ کی سفارتکاری شروع ہوجائے گی۔ایک طرف جنوبی افریقہ کا دورہ اور پاکستان کی آزمائشی مقابلوں میں جیت تو دوسری طرف دنیا ئے کرکٹ کے شائقین میں گوادر کے خوبصورت اسٹیڈیم نے پاکستانی کرکٹ کو چار چاند لگادئیے ہیں۔

حالات کے پیش نظر ہم پاکستانیوں نے ہر حال میں حکومتی اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے(اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں کہ دل سے کیا ہو یا پھر جبر سے کیا ہو)۔ وہ قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ ہو یا پھر کسی سانحے یا حادثے میں امداد کی اپیل کی گئی ہویا پھر کسی بھی طرح سے عوام کے تعاون کی ضرورت پڑی،تاریخ گواہ ہے عوام کبھی پیچھے نہیں ہٹی یہاں تک کہ اس عوام نے اپنے ذاتی نقصانات بھی برداشت کئے۔پاکستان میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کو صدارتی طرز کا حفاظتی حصار فراہم کیا جاتا ہے جو شائد ہی کسی اور ملک میں دیا جاتا ہو(کیونکہ شائد ہی کسی ملک کا پڑوسی ہمارے پڑوسی جیسا ہو)۔ ایسا کرنا پاکستان کیلئے ناگزیر تھا کیونکہ دہشت گردپڑوسی ملک کی ایماء پر پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔پاکستان، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کبھی بد ترین دہشت گردی کی زد میں تھا، آئے دن دھماکوں سے اٹھتے دھویں اور خون میں لتھڑی لاشیں ملک میں آئے دن سوگ کا سما رہا کرتا تھا۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی زندگیوں کی پروہ کئے بغیر عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے دن رات ایک کر دئے اور دشمن کو اسکے گھر تک میں گھس کر مارا۔

اب جب کے صورتحال تسلی بخش ہوچکی ہے اور ممکن حد تک قابو میں آچکی ہے دنیا جہان کے حفاظتی ماہرین ہمارے اداروں پر اپنا بھرپور اعتماد واضح کر چکے ہیں۔ اب جب کے سب کچھ موافق ہوچکا ہے تو پھر حالات کو تھوڑا تھوڑا کر کے معمول پر لانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جارہی۔حقیقت میں کراچی کے شہر عام حالات میں آمد و رفت کے بحران میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں اور کوئی اس بحران پر توجہ نہیں دیتا، وفاق صوبے پر اور صوبے وفاق کی طرف کا راستہ دیکھا دیتے ہیں، سب سے بڑی وجہ سرکاری ذرائع آمد و رفت کا شہر میں نا ہونا ہے شہریوں کو اپنے بندوبست کرنا پڑتے ہیں تو دوسری طرف سڑکوں کا جو حال ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے غرض یہ کہ شہری ذہنی مریض ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پر اہم شخصیات کی آمد ورفت کے لئے گھنٹوں سڑکوں پر کھڑے رہنا دوہر ہ عذاب۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے شہر کراچی میں جب کبھی کرکٹ کا میلہ سجے گا کراچی والے اپنی زندگیوں کا قیمتی وقت سڑکوں پر پھنسی جمی ہوئی گاڑیوں کی لائنوں میں گزارینگے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے انتہائی منظم ہیں یہ شہریوں کی ذمہ داری کیوں نہیں لیتے۔بد قسمتی سے کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم شہر میں ایسی جگہ واقع ہے جوتقریباً مرکزی حیثیت کا حامل ہے یہاں سے گزر ے بغیر سفر مکمل کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور بین الاقوامی طرز کے مقابلوں کے درمیان تو نا پوچھے شہر کس قرب میں مبتلا ہوتا ہے۔ تھوڑے وقت کیلئے اعلانیہ روک تو قابل برداشت ہوسکتی ہے لیکن مکمل راستوں پر رکاوٹیں رکھ کر بند کردینا کہاں کی منصوبہ بندی ہے۔مقابلوں کے انعقاد کی منصوبہ بندی کیساتھ ساتھ شہری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو اول ترجیح میں شامل کریں کے شہریوں کو ناہونے کے برابر تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حفاظتی حصار میں دو بڑے ہسپتال بھی آتے ہیں جو بظاہر تو کھلے ہوتے ہیں لیکن ان تک رسائی کے راستے اتنی بری طرح سے بند ہوتے ہیں کہ ایک عام مریض کی بھی جان جانے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔

انتظامیہ اور ارباب اختیار پاکستان سپر لیگ ۶ کیلئے کئے گئے انتظامات کا دوبارہ جائزہ لیں اور راستوں کوحسب اعلان صرف ٹیموں کی آمد و رفت کے دوران بند کیا جائے اور اسکے بعد عام صورتحال کی طرح کھول دیا جائے۔ تاکہ عوام کا یہ تاثر یکسر غلط ثابت ہوجائے کہ کرکٹ کے مقابلے میدانوں میں نہیں سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھرپور بھروسہ ہے کہ وہ اب دشمن کی ہر چال سے خوب واقف ہیں اور کسی قسم کی بد نظمی پیدا نہیں ہونے دینگے۔ انشاء اللہ

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔