مساجد اور بہترین انداز زندگی

مساجد مسلمانوں کیلئے بڑی پر مقدس، پر سکون اور پر رونق جگہیں ہوتی ہیں ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ حضرات جو مساجد میں اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں اور وہاں پر دیگر دروس میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ مبارک ہیں وہ خواتین جنکے بیٹے ، شوہر ، بھائی ، سسر اور باپ مساجد میں نماز ادا کرنا پسند کرتے ہیں اور اولین ترجیح دیتے ہیں ہر موقع پر میں بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ مساجد کا ایک اور تو کیا کئی اور مقاصد دنیاوی و دینوی ہیں جنکو اپنا کر ہم لوگ دونوں جہاں کی عافیت سمیٹ سکتے ہیں ۔ نمازیں تو سب سے پہلے خود ہی ایک منفرد اور منظم نظام حیات لئے ہوئے ہیں جس میں ٹا ئم منیجمنٹ سے لیکر صفا ئی ستھرائی جسمانی سے روحانی تک اور بہترین ورزش جو زندگی کو چاک و چوبند کردے اور روحانی سکون ، جو فرحت اور راحت عطا فرمائے اور وہ حسین و جمیل نمازوں کی ادائیگی کے مناظر ناقابل بیان مگر روحانی ٹھنڈک کے احساس کو تراوٹ عطاکرتے ہیں جن کا کوئی بدل ناممکن ہے ۔ سبحان اللہ سب سے پہلے کان جاگتے ہیں اذانوں کی آوازوں پر پھر نفس یعنی ضمیر جھنجوڑا جاتا ہے ۔ نفس کا فیصلہ آ گے آتا ہے اور بندہ موت سے گویا نیند سے جو موت کے برابر ہوتی ہے زندگی کی طرف آتا ہے گو یا جاگ جاتا ہے ۔ وضو کرکے یقین بڑھاتا ہے اور اپنے رب کو منا تا ہے ۔ واقعی فجر کی نماز اللہ اکبر کتنی قوت رکھتی ہے۔ اسکا احساس اہل ایمان کی ہی خوش نصیبی ہے ۔ غیر مسلموں میں اور مسلمانوں میں زندگی کی ابتدا کے اوقات کار ذرا مختلف ہیں وہ صبح سے شام “ڈان ٹو ڈسٹ” جبکہ مسلمانوں وغیر ہ میں لیل و نہار گویا زندگی کی باگ ڈور شب و روز آدھی رات کے بعد تہجد سے ہی صبح اور پھر رات تک کا دورانیہ بمع عبادات اور ضروریات زندگی کے تمام عوامل شامل ہیں کیونکہ دنیاوی تمام تر میں دین ہی کارفرما ہوتا ہے اس لئے ایک مسلمانوں کے شب و روز گویا لیل و نہار اللہ کے احکامات کے تحت ہیں جبھی تو زندگی اور بندگی ساتھ ساتھ ہے ورنہ آپ دیکھیں کہ زندگی بے بندگی شرمندگی ہی نہیں بسا اوقات وہ درندگی بھی بن جاتی ہے ۔ کاش کے ہمارے ملک کی بلکہ دنیا میں جہاں جہاں مساجد ہیں ہر مسجد فجر کی نماز پر فل ہو بالکل بھری ہوئی اور خشوع وخضوع سے جماعت کے ساتھ نمازیں ہوں تو یقین جانئے پوری دنیا وہ نظارہ پیش کرے جسکی مثال نہ ملے ۔ صرف ایک فجر کی نماز ہی اگر ہماری درست ہوجائے باجماعت اور اپنے ممالک کے مقررہ ایک وقت میں ہو جائے تو مسلسل اس کی ادائیگی دیگر لوگوں میں وہ روحانی تقویت عطا کرے کہ مومن اور مسلم واضح نظر آنے لگیں اور ایک دبنگ دھاک غیر مسلموں پر بھی بیٹھ جائے ۔ ہمارے اسلامی ملک پاکستان میں فجر کی نماز کو لازمی ہونا چاہئے تمام پاکستانی مردوں کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری اور کلی عبادت کا پہلا مرحلہ ہو گا کیونکہ فجر کی نماز کو لوگوں نے بہت ہی ہلکا سمجھا ہوا ہے ۔ اب تو ہربندے کے ہاتھوں میں علم ہے ۔ ایک بٹن دبائیں اور مکمل معلومات حاصل کریں ۔ علم کے دروازے کھولیں اپنے اندر کو ٹٹولیں ، اپنا مقام پہچانیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ۔ عمر کو یوں رائیگاں کریں گے تو کل رب کو کیا حساب دینگے ؟ آپ کو اور ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فجر کی نماز ہماری نیند سے کیوں بہتر ہے ؟ اتنا اچھا کسی نے پیغام دیا کہ واقعی دل کو لگا ۔ نیند ہمیں کتنی پیاری لگتی ہے ۔ ہر بندہ سکون سے زیادہ سے زیادہ سونا چاہتا ہے مگر نیند نفس کی آواز کو سنتی ہے جبکہ میری نماز فجر اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنتی ہے ۔ نیند تو موت کادوسرا نام ہے کہ سویا ہوا اور مرا ہوا برابر ہے جبکہ نماز تو حیات ہے زندگی ہے کیونکہ نماز سے کیسے بدن کو راحت اور دل کو سکون ملتا ہے جبکہ روح کو تک راحت میسر ہوتی ہے جبکہ سو کر تو انسان اکثر اور زیادہ سست کاہل اور ڈھیلا رہتا ہے ۔ نیند میں تو مومن کافر سب ہی شریک ہوتے ہیں جبکہ نماز کے ذریعے مومن کافروں سے بالکل الگ ہوجاتے ہیں ۔ فجر کی نماز پڑھنے والوں کی جماعت کیسی فرمانبرداری جن کے چہرے روشن پیشانیاں چمکدار ہونگیں اور ان کے اوقات میں کتنی برکت ہوگی ۔ جب ہم صبح نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو ہمارے کام کتنی اچھی طرح سمٹ جاتے ہیں واقعی ہمارے وقت میں برکت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر ہم سرخرو بھی رہتے ہیں ۔ الحمد للہ جتنے بھی لوگ اس جماعت میں ہیں انہیں رب کا کتنا شکر ادا کرنا چاہئے اور جو نہیں ہیں تو انہیں ساتھ لینے کی کوشش ان کے لئے دعائیںمانگنے کی ضرورت ہے کہ رب کریم انہیں نمازی بنادے کیونکہ صلا ۃ الفجر کی سنتیں دنیا اور ان کی تمام ہی اشیاء سے بہترین ہیں اور فرض نماز تو ہمیں رب کریم کے ذمہ کردیتی ہے ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے جس پر جو جیتا ہے اسی پر اس کی موت ہوتی ہے اور جس پر اس کی موت ہوتی ہے اسی پر وہ اٹھایا جائے گا ۔ انشاء اللہ تو پھر ساتھیوں دیر کیسی ہم نے سنا ہے نا کہ

سونے والے رب کو راضی کرکے سو

جانے کب تیری صبح ہو نہ ہو

یہی نماز فجر ہمیں اتنا منظم اور محتاط بنا دیگی کہ ہم خود اپنی نماز وں کی حفاظت کرینگے یہاں تک کہ رات ہو جائے گی اور رات کا احساس دوبارہ ہمیں صبح کی تیاری پر رکھے گا اس طرح زندگی کے شب و روز ہمیں اپنے رب سے قریب کرتے رہینگے کتنی خوشی کی بات ہوگی کہ ہم جہنم سے اتنے ہی دور ہو تے جائینگے ۔ بس ایک قدم اٹھانے کی خالص نیت اور مضمم ارادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ صبح تو رحمتیں بٹتی ہیں ۔ جو فجر سے محروم رہا گویا اس نے اپنی رحمتوں کو خود بھی لوٹا دیا من چاہی کی نفس کا غلام بن بیٹھا جب کہ دعویٰ تو اسے اللہ کے بندے ہونے کا تھا پھر یہ تضاد؟؟ !! قابل غور، قابل تشویش اور بہت کچھ منفی ہی ہے۔ آج کل کے عالمی “کرونا”مسئلے میں تو اس کی اہمیت مزید کھل کر سامنے آچکی ہے ہم پھر بھی سوئے ہوئے ہیں ! جب مساجد کھچا کھچ بھری ہونگی خود بخود لوگ سدھریں گے ایمان بڑھے گا ، انصاف بڑھے گا مساجد کے کئی فوائد ہونگے موت میت سے آگے بڑھ کر وہ ایک ایسا فلاحی ادارہ بن جائیگا جہاں تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ ، انصاف فراہم ہو گا ۔ فیصلے ہونگے اور جلد ہونگے۔ کردار انسانیت اپنا رنگ دکھائے گی نکاح عام ہو گا اس کے ساتھ ساتھ مسائل کے قر آن و سنت کے مطابق نہ صرف فیصلے ہونگے بلکہ لوگ خوشی خوشی اپنے دنیاوی اور دینی فرائض ادا کرینگے۔ دم درود کے ذریعے علاج بھی ہوگا ۔ دینی اور دنیاوی تعلیم عام ہوتی جائے گی جو اولین فرض بھی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ایک مسافر خانہ ، مہمان خان اور سماجی بہبود کا مرکز بن جائے گا ۔ بچوں ، بڑوں ، مرد و خواتین کے الگ الگ پروگرامز بھی مرتب ہوسکتے ہیں اور بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔ کمیونٹی سینٹر اور ایک ویلفیئر ادارے کی حیثیت سے بھی اسے بروقت حاصل ہو جائے گی اور یوں مساجد کی موجودگی اور انکا مثبت عمل ہمارے معاشرے ہمارے ملک کے اندازِ زندگی کو یکسر بدل دیگا جس کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ یہ روئیے یہ انداز زندگی ہی تو مسلمان کی منفرد اور حوصلہ مند ہو نی چاہئے ۔ ایسا اصلاحی اور فلاحی عمل ایک دو دن کیلئے نہیں بلکہ زندگی کی آخری سانس تک احساس بندگی کے ساتھ ہو تو ہی زندگی کا حق ادا ہو گا ورنہ تو بے نمازی کی نمازِ جنازہ تک منع ہے ۔ اب سوچیں پہلا مرحلہ اور پہلی کلاس کب اور کہاں سے شروع ہوئی وہی نماز فجر کا آغاز زندگانی اور انشاء اللہ آگے تو پھر منزل نظر آنے لگے گی اور راستہ بھی صاف اور آسان لگے گا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے شوہر ، باپ، بیٹے ، بھائی سب ہی نماز فجر باجماعت مسجد میں اداکریں ۔ آمین ۔ ہمارے علاقے میں ایک شخص روزانہ فجر کی نماز کے وقت اذان سے کچھ دیر بعد بلند آوازوں میں کہتا ہوا گذرتا ہے کہ بھائیوں نماز کا وقت ہوگیا ہے ۔ نماز ادا کیجئے ۔ نماز نیند سے بہتر ہے ۔ بھائیوں نماز کیلئے اٹھ جائیے ۔ یقین جانئے بعض دفعہ ہمیںاذان نہیں بلکہ اس بندے کی آواز جگا دیتی ہے اور ہم شکر ادا کرتے ہوئے اٹھتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں جگانے کیلئے بندہ تک بھیج دیا ۔ پھر بھی ہم سوئے رہیں تو پھر ہم کس کے بندے ہوئے ؟ اللہ کی مہربانیوں کا نعمتوں کا جتنا شکر کریں کم ہے ۔ یہ موبائل کا الارم ، یہ اذان ، یہ اہل خانہ ، یہ مزید صدا لگانے والے بندے ، لائوڈ سپیکر ، مائیک کی اذان اور گھروں میں بھی جنکے باجماعت نمازیں اہل خانہ (بعض جگہوں پر) پڑھتے ہیں انکی آوازیں مزید لوگوں کو جگانے کیلئے کافی نہیں؟ کیا ابھی بھی ہم عذر پیش کرنے کے قابل ہونگے؟ ہر نعمت کا ہر رشتے کا ہر بندے کے تعاون کا اور سب سے پہلے اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن جائیے اور اس عمل کو جاری رکھیں ۔ دین کی اشاعت میں اپنا حصہ ڈالیں چاہے آپکو اکیلے ہی اس بندے کی طرح جانا پڑے آہستہ آہستہ خود ہی قافلہ بن جائے گا ۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا

پس یہی حال اس دنیا کا ہے ۔ چلنا ہمیں ہے فیصلہ ہمیں کرنا ہے ۔ اللہ تو ہے ہی مہربان وہ ضرور ہاتھ تھام لے گا اور بیڑا پار لگا دے گا ۔ انشا ء اللہ ۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آنے والے ہر لمحے ہمیں تیار رکھے ۔ اللہ کو وہی عمل پسند ہے جو دائمی ہو تو اللہ ہم سے وہ اعمال کر والے ہمیں چن لے۔ آمین