اشتہارات اور معاشرتی بگاڑ‎

کوئی بتائے  یہ انداز پیش رو کیا ہے؟”

سرمایہ داروں کی دنیا بھی بڑی عجیب ہے بے حس،بے ضمیر جنھیں محض پیسہ کمانے کی ہوس ہوتی ہے۔۔اخلاقیات،مزہب،معاشرت سب جائیں بھاڑ میں ان کا اس سب سے کیا لینا دینا؟اس کا منہ بولتا ثبوت ہمارے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے اشتہارات ہیں جو ان سرمایہ داروں کی کمپنیوں کی پراڈکٹس کی تشہیر کے لیے بنائے جاتے ہیں اور اگر آپ اپنے آپ کو ان لغویات سے بچانے کے لیے ٹیلیویژن جیسی لغو شے کو گھر میں نہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو جناب یہ بھی بےکار ہے کیونکہ سڑکوں پر لگے بڑے بڑے بل بورڈز ہر جا آپ کے ایمان کا امتحان لیتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں کون سے معاشرے اور اس کے مکینوں کا طرز رہائش دکھاتی ہیں ؟وہ کون سے گھرانے ہیں جہاں بسکٹ کھانے کی خوشی منائی جاتی ہے باقاعدہ شادیوں پہ پہنے جانے والے لباس پہن کر ڈانس کر کے یا پھر ہو سکتا ہے کہ شادی کے موقع پر مہمانوں کی تواضع کے لئےبسکٹ لاۓجاتے ہوں اور سب مہمان اتنے” ندیدے” ہوتے ہیں کہ جھوم جھوم کر اس بسکٹ کے “صدقے واری” جانے لگتے ہیں..

جہاں عورتوں کا کام ڈانس دکھا کر چائےبیچنا ہوتا ہے۔۔۔کیا آپ نے ایسا کوئی گھرانہ دیکھا ہے؟؟

جہاں تک مجھ کم علم ،کم نگاہ کو دکھائی دیتا ہے تو وہ مزدور جو اپنی دیہاڑی لگا کر تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو اس کی جیب میں فقط اتنے ہی پیسے ہوتے ہیں کہ وہ اور اس کے بیوی بچے روکھی سوکھی ہی کھا سکیں ۔۔۔یا پھر متوسط طبقے کا ملازم جس کی ساری زندگی بجلی،گیس،پانی کے بل،بچوں کی فیسوں کی ادائیگی میں ہی گزر جاتی ہے اس کا کیا لینا دینا ان فرنشڈ گھروں سے؟؟ایسے میں جب وہ اس طرز زندگی کا موازنہ نہ چاھتے ہوۓ بھی اپنی زندگی سے کرنے لگتا ہے اور نتیجہ کیا نکلتا ؟؟ڈپریشنز،فرسٹریشن اور آخر میں خود کشی؟؟

ان کمپنیوں سے میرا ایک سوال ہے کہ آخر سب کے پیچھے کیا مقصود ہے ؟کیا پہلے جب اشتہارات بنائے جاتے تھے تو کیا ان کمپنیوں کی پراڈکٹس سیل نہیں ہوتی تھیں؟؟کیا لوگوں نے بسکٹ کھانے اور چائے پینے چھوڑ دی ہے جو وہ اپنے ایمان کے سودے کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں؟؟کیا انھوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ رزق کی بڑھوتری کا اختیار ان کے اپنے ہاتھ میں ہے؟؟کیوں عورت کو تماشہ بنیا جاتا ہے کی وہ اتنی حقیر ہے کہ محض ایک ارزاں ترین شے بسکٹ یا چاۓ کے ایک پیکٹ کے لیے اسے سرعام نچوایا جاتا ہے؟؟مانا کہ قصور عورت کا بھی ہے مگر اس سب کی داغ بیل ڈالنے والے تو آپ ہیں ناں۔۔۔

ابھی بھی وقت ہے خدا کو ناراض مت کریں اپنا قبلہ درست کر لیں ورنہ آخرت کی جواب دہی سے بچنا ممکن نہیں پوچھ ہو گی اور بہت کڑے انداز سے ہو گی۔۔۔آج معاشرے میں ہونے والی خودکشیاں,لٹنے والی معصوم عصمتیں سب آپ کے نامہء اعمال میں لکھی جائیں گی کہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب آپ ہیں۔