کووڈ۔19 ویکسین، قوم پرستی اور تحفظ پسندی سے گریز

دنیا میں کووڈ۔19کے مصدقہ کیسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ جاری ہے اور تاحال مریضوں کی تعداد آٹھ کروڑ کی خطرناک حد پار کر چکی ہے۔عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں سترہ لاکھ سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ برطانیہ میں وائرس کی ایک نئی قسم سامنے آنے کے بعد عوام میں مزید تشویش پائی جاتی ہے۔اس صورتحال میں امید کی واحد کرن ویکسین کی عام دستیابی ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اکثر مغربی ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل شروع بھی کر دیا گیا ہے۔

اس پیش رفت کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر رہے ہیں کہ کیا دنیا میں ویکسین کی عام دستیابی ممکن ہو سکے گی یا پھر ترقی یافتہ اور وسائل سے مالامال ممالک پیسے کے بل بوتے پر ویکسین کو صرف اپنے عوام تک ہی محدود کر دیں گے۔اس حوالے سے تشویشناک بات اکثر  ترقی یافتہ ممالک کے رویے ہیں جو ویکسین کو زخیرہ کرنے کے لیے تمام وسائل استعمال میں لا رہے ہیں۔ایسے اقدامات سے وبا کے حوالے سے عالمی تعاون کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور کمزور ممالک کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے۔

اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے ویکسین کی تحقیق و ترقی اور اس کی عام رسائی کے حوالے سے کووایکس تعاون منصوبہ لانچ کیا تھا، جس کے تحت ویکسین کی تقریباً دو ارب خوراکیں خریدنے کے معاہدے  طے پا چکے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ویکسین تیار کرنے والے ممالک اس بات کی اجازت دیں گے کہ منصوبے کے مطابق دیگر دنیا کو ویکسین فراہم کی جائے ،کیونکہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ مستقبل قریب میں متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کی ویکسین تک رسائی ممکن ہو پائےگی۔ سنگین عالمی وبائی صورتحال میں ایک جانب ترقی یافتہ ممالک وسیع پیمانے پر ویکسین زخیرہ کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں ، تو دوسری جانب محدود وسائل کے حامل غریب ممالک شدت سے ویکسین  کےمنتظرہیں۔اعدادوشمار پر روشنی ڈالی جائے توبلندآمدنیوالےممالک دنیاکی کل آبادی کاصرف چودہ فیصدہیں،لیکن انہوں نےدنیاکی نصف آبادی کےمساوی ویکسین پہلےہی خریدلی ہے۔چند  ممالک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مالیاتی وسائل کے بل بوتے پراپنی مجموعی آبادی سےکئی گنا زائد ویکسین پہلے ہی خرید رکھی ہے۔دوسری جانب متوسط اور کم آمدنی والے درجنوں ممالک ایسے ہیں جہاں اندازوں کے مطابق اوسطاً دس میں سے ایک فرد کو ویکسین لگانے کی توقع ہے جبکہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ  ممالک کے برعکس ایسے ممالک میں آئندہ برس کے اواخرتک ویکسی نیشن کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ماہرین کے نزدیک ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں وبا کی سنگینی جاری ہے، وہاں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ویکسین زخیرہ اندوزی غیر منصفانہ قدم ہے، جس سے انسداد وبا کے عالمی تعاون کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے ایسے رویے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کےبرعکس ویکسین تیاری کےحوالے سےصف اول میں موجود چین، ویکسین کی عالمی سطح پر منصفانہ تقسیم کے لیے اپنے تمام وسائل بروئےکار لا رہا ہے۔چین نے ہمیشہ اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے بعد تقسیم کے مرحلے میں اسے  ایک عالمی عوامی پروڈکٹ کا درجہ دیا جائے گا۔ویکسین تیاری کے عالمی تعاون کے تحت چین نے ویکسین ٹرائل کےمراحل میں برازیل، انڈونیشیا، مصراوردیگرممالک کوشامل رکھا ہے اور ابھی حال ہی میں برازیل نے چینی اداروں کی تیارکردہ ویکسین کو انتہائی موئثراورمحفوظ قراردیاہے۔ عالمی اداروں نےچین کےسیاسی عزم اورپیداواری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے امید ظاہر کی ہےکہ چین ویکسین کی گلوبل سپلائی میں انتہائی اہم کرداراداکرے گا۔ یہاں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ملک اُس وقت تک محفوظ تصور نہیں ہو گا جب تک دنیا بھر سے وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا۔ویکسین کے حوالے سے تحفظ پسندی بھی وبا سے بچاو میں کارگر ثابت نہیں ہو گی۔

ویکسین کے حوالے سے قوم پرستی اور تحفظ پسندی عالمی سطح پر اقتصادی بحالی کی کوششوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگی۔چین اس سے قبل بھی اپنے عملی اقدامات سے ثابت کر چکا ہے کہ وہ دنیا کے وسیع ترمفاد کو ہمیشہ عزیز رکھتا ہے۔چاہے انسداد وبا کے لیےدرکار  ساز وسامان ہو یا پھر اب ویکسین کی تیاری و فراہمی ،چین نے ہمیشہ ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کو ترجیح دی ہے۔

عالمی وبا نے دنیا کو یہ ضرور باور کروایا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہے لہذا ویکسین کی تقسیم میں بھی سرحدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقدامات ناگزیر ہیں۔مغربی ترقی یافتہ ممالک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کووڈ۔19کے خلاف حتمی فتح صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب ویکسین کی تیاری اور تقسیم منصفانہ طور پر کی جائےگی وگرنہ عارضی طور پر خود کا تحفظ تو ممکن ہے لیکن دیرپا بنیادوں پر یہ کوئی پائیدار حل نہیں ہے اور وبا کے دوبارہ پھیلاو کا خطرہ ہروقت موجود رہے گا۔عالمی رہنماوں کو دانشمندی ،کھلے پن اور قوم پرستی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئےدنیا کے ایک محفوظ اور روشن مشترکہ مستقبل کے لیے فیصلے کرناہوں گی، تب ہی وائرس کو شکست دی جا سکےگی۔