زمین کی انوکھی کہانی پر تبصرہ

کتاب “زمین کی انوکھی کہانی” کی اشاعت دراصل اکیسویں صدی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی فلیٹ ارتھ تحریک کا نتیجہ ہے. جس کے ماننے والوں کے مطابق زمین کوئی  گھومتا ہوا گولا نہیں بلکہ ساکن اور ہموار سطح کی مانند ہے.

اس تحریک میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے ہر عمر، قوم اور ملک کے افراد شریک ہیں. لیکن یہ کتاب  خاص طور پر بچوں کے لئے ڈیزائن کی گئ ہے اور رنگین تصاویر سے بھرپور ہے لیکن وہ افراد جو فلیٹ ارتھ یعنی زمین کے چپٹا ہونے کے متعلق زیادہ معلومات نہیں رکهتے  یا ان تک اس  نظریہ کے متعلق مستند معلومات نہیں پہنچیں وه بهی اس سے بهرپور استفادہ حاصل کر سکتے ہیں.

کتاب کے مصنف “ایرک ڈوبے” فلیٹ ارتھ تحریک کا ایک بہت بڑا نام ہیں جن کی کئ تصانیف اس موضوع پر شائع ہوچکی ہیں  اور ان کا ترجمہ دنیا کی تقریباً تمام  زبانوں میں ہوتا رہا ہے بالکہ  مسلسل ہورہا ہے. انہی میں یہ کتاب “The Earth Plane” بھی شامل ہے. جس کا  گیارہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور اب گل رعنا صدیقی کی بدولت اردو بھی ان گیارہ زبانوں کی فہرست میں شامل ہوچکی ہے.

گل رعنا صدیقی بچوں کے ادب میں اپنے سلیس اور دلچسپ ترجمہ کی بدولت کافی مقبول ہیں. ان کے بےشمار تراجم مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں اور اس صنف کی مد میں وہ  مختلف اعزازات بھی حاصل کرچکی ہیں. انہوں نے سائنسی اصطلاحات سے بھرپور اس ناول کا ترجمہ اس انداز سے کیا ہے کہ باوجود مشکل اصطلاحات کے قاری سمجھ سکتا ہے کہ  بات اخر ہو کیا رہی ہے،  الفاظ و تصاویر کا حسین امتزاج قاری کو  تمام موضوعات سمجھنے میں مکمل مدد فراہم کرتا ہے.  اس ناول میں ہر باب کے ساتھ ایک خاکہ نووارد کی فہم کو راستہ دکها کر  موضوع سے متعلق پختگی عطا کرتا ہے .

کہتے ہیں اختلافات سے ہی اس دنیا کا حسن قائم ہے.  جسطرح دنیا میں مختلف رنگ  اس کا حسن ہیں اسی طرح انسانوں کا مختلف ہونا، ان کے نظریات کا مختلف ہونا بهی اس دنیا کا حسن ہے. رب کائنات نے ہر شے کو اک دوسرے سے مختلف پیدا کرنے کے ساتھ  انہیں عدلو انصاف  انصاف کا حکم بھی دیا ہے ، کہ اگر کسی کے ساتھ اختلاف رکھنا ہے تو عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.

اسی انصاف کی ایک زندہ مثال یہ ناول ہے جس میں مصنف نے دنیا کے زمین کے بارے میں رائج شدہ نظریہ کے خلاف اسی سائنس سے استفادہ  حاصل کیا ہے جسے  مان کر اس نظریہ کو رائج کیا گیا تھا. فرق صرف اتنا ہے کہ وہ نظریاتی سائنس تھی جس میں کوئی تجربہ نہ تھا مگر یہ تجرباتی اور مشاہداتی سائنس ہے جس سے رائج شدہ نظریہ غلط ثابت ہوجاتا ہے.

جب بھی کوئی سوال ہمارے ذہنوں میں اس رائج شدہ نظریہ کے خلاف آتا ہے یا  پهر ہم کوئی ایسی بات سوچیں جو پچهلے نظریات سے ہٹ کر ہو یا ان خانوں کو پر نہ کرسکے تو ہمارے ارد گرد موجود لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں.

اس ناول میں بھی ایک بچہ جو اپنے دادا کے ساتھ سچائی جاننے کے سفر پر نکل پڑتا ہے اس کا اسکول میں سوالات کرنے پر بہت مذاق اڑایا جاتا ہے. ہمارے اسکولوں میں یہ رویہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود کردیتا ہے اور ایسے تمام بچے جو دوسروں سے الگ سوچتے ہیں اور جو اندھا دھند پیروی کی بجائے ہر کام کی وجہ جاننا چاہتے ہیں تو انہیں یہ معاشرہ غلط قرار دے دیتا ہے. ہم سمجھتے ہیں جو ہمارے لحاظ سے ٹھیک نہیں وہ غلط ہے جبکہ وہ صرف الگ ہوتا ہے. ناول پڑھنے کے دوران ہر سوال قاری کو اپنا سوال محسوس ہوتا ہے اور ہر مشاہدہ و تجربہ اسے مصنف کی حمایت کے لیے مجبور کردیتا ہے.

اس دلچسپ سفر میں بچہ کی تجرباتی مہم کا آغاز تب ہوتا ہے جب اس کے دادا بچہ کے بار بار سوالات پوچھنے اور تجسس کی بنا پر اسے دنیا کے سب سے بڑے راز کے بارے میں کچھ اس طرح بتاتے ہیں :

” میں اب تمہیں ایک راز کی بات بتانے جارہا ہوں جو اس دنیا کا بہت بڑا راز ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ اس ناقابل یقین راز کو اپنی پوری زندگی میں جان پاتے ہیں اور وہ چند لوگ جو اسے جان جاتے ہیں، وہ عام طور پر اسے اپنے آپ تک محدود رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ راز درحقیقت دنیا کے سب لوگوں کے سامنے موجود ایک کھلی حقیقت ہونی چاہیے۔ لیکن جب تم اسے لوگوں کو بتانے کی کوشش کرو گے تو لوگ پاگل سمجھ کر تمہارا مذاق اڑائیں گے۔یہ ناقابل یقین لیکن کھلا راز اسی طرح گزشتہ پانچ سو سال سے دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔“

اب وہ راز دراصل ہے کیا اور اس تک وہ بچہ کس طرح اور کن حالات سے گزر کر پہنچتا ہے، یہ تو آپ کو ناول پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا.

سو ایسے تمام بچے اور بڑے جنہوں نے اسکول میں آسمان، زمین چاند، سورج، ستارے اور اللہ کے مظاہر کے متعلق سوالات کیے مگر انہیں تسلی بخش جوابات نہیں دیے گئے تو وہ اس ناول میں اپنے سوالات کے جوابات تجربات کے ساتھ تلاش کرسکتے ہیں. ہوسکتا ہے صرف پڑھ کر ہر تجربہ سمجھ نہ آسکے تو آپ اسے خود کرکے دیکھیں. جو جو تجربات آپ کرسکتے ہیں کرگزریں. مہم جو اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے پہلی بار اس موضوع پر اردو میں یہ ترجمہ شدہ ناول ان شاءاللہ بہت مفید ثابت ہوگا .

یہاں ایک بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب کسی استاد کے خلاف کوئی بات کی جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کو برا کہا جارہا، جب کسی سیاستدان کے خلاف بات ہو تو لوگ سیاست کو برا سمجھنے لگتے، جب کسی پولیس آفیسر کے خلاف بات ہو تو لوگ کہتے محکمہ پولیس کو برا کہا جارہا، اسی طرح غرض کوئی بھی شعبہ ہو چاہے میڈیا ، قانون، صحت یا سائنس. ہر ہر شعبہ میں جب کسی ایک فرد یا گروہ کے خلاف کوئی بات ہو تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ مخالف پورے شعبے کا دشمن ہے. جبکہ ایسا بالکل نہیں ہوتا. جیسے اب یہ ناول پڑھ کر اگر کوئی کہے کہ سائنس کے خلاف بات ہورہی  ہے تو یہ غلط ہوگا. مصنف کا نظریہ سائنس کی دشمنی کو نہیں بلکہ اس سے مخلصی کو ظاہر کررہا ہے کہ انہوں نے کس قدر دلجمعی سے تمام تجربات خود کرکے پرکھے بجائے اس کے کہ کسی کی بات پر اندھا یقین کرتے انہوں نے سائنس کو اس کی اصل سے روشناس کروایا کہ سائنس دراصل وہ  تجربہ اور مشاہدہ ہے جسے ہر شخص کبھی بھی کسی بھی وقت دہراسکے اور جسے بار بار آزماکر  بھی ثابت کیا جاسکے.

سو،  ناول میں موجود تمام تجربات و مشاہدات اسی اصل سائنس کا شاخسانہ ہیں.

اب یہ تمام تجربات و مشاہدات درست ہیں یا غلط اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود پڑھ کر فیصلہ کریں کہ آیا جو کچھ وہ اپنے بچپن سے سنتے اور پڑھتے آرہے وہ درست تھا یا جو سائنسی تجربات و مشاہدات انہیں یہ کتاب بتارہی ہے  وہ درست ہیں.

 

نام کتاب : زمین کی انوکھی کہانی 

مصنف : ایرک ڈوبے 

ترجمہ : گل رعنا صدیقی 

قیمت : 400

رعایتی قیمت : 350 بمع ڈیلیوری 

صفحات : 80

ناشر : آشیانہ پبلیکیشنز 

تبصرہ نگار : طیبہ فاطمہ

 

کتاب حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نمبر پر اپنا نام، فون نمبر اور پتہ لکھ کر بھیج دیں۔آپ کو کتاب گھر بیٹھے پہنچادی جائے گی

+923042920640

یا اس پتہ سے بھی کتاب حاصل کی جاسکتی ہے

لکی بک ڈپو، لیبر اسکوائر نزد محمد بن قاسم مسجد، کورنگی نمبر 3، کراچی

حصہ