سقوط ڈھاکہ مبارک‎

بڑے دنوں سے موسم بدل رہا تھا،پرندے ڈار پر اداس بیٹھے رہتے،یہ کیسی انہونی ہونے والی تھی؟یہ کیسی سنسان ہوا تھی؟یہ کیسی اداس فضا تھی؟آسمان پر یاسیت کے بادل کیوں چھائے ہوئے تھے؟

یہ بھائ بھائ سے نظریں چرا کر گزر رہا ہے؟یہ قافلہ جاں کیوں ذرا ہٹ کر گزر رہا ہے؟سب کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے کیوں؟زمیں کا چہرہ لہو سے دھلا ہوا ہے کیوں؟یہ وہم ہے یا ہوگیا ہے؟ستم ہونا ہے یا ہوگیا ہے؟

زبان اور بھاشا جھگڑ رہی ہے،خرد کی حد بھی سکڑ رہی ہے،مچھلی بھات اور روٹی سالن میں جنگ چھڑی ہے۔۔۔۔۔ہائے !!کیسی ہوا چلی ہے۔

سنار بھیڑیوں کی رال پر ہے،بٹوارا اس کی جوتیوں پر ہے۔

یہاں کج فہموں کی سیاست عروج پر ہے،وہاں شقاوت عروج پر ہے،بھائیوں کی لڑائ اور مفاد پرستی نے کھیل کھیلنے کا موقع دے دیا ہے،سو اب بغاوت عروج پر ہے۔

اور دشمن دانت نکوستے ہوئے سازش کی بدبو دار ہنڈیا چڑھا چکا ہے،بہت ہمدرد بن کر دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے کی خواہش لیے تلا پڑا ہے۔مگر یہاں پہ قافلہ اپنی ضدوں پر اڑا ہوا ہے۔

تم نے ہماری نہیں مانی ہم تمھاری کیوں سنیں؟ہم جیتے تم ہارے،ارے جاو ادھر تم ادھر ہم اور اسی تو تکار میں گنگا رام کرگیا ستم۔

بغل میں چھری بھی تھی منہ پر رام رام بھی

تمھاری شکست کو یوں دے گیا دوام بھی

اب بچھڑے نہیں مل سکیں گے

نفرتیں ختم نہیں ہوسکیں گی

اتنی کاری ضرب ہے کہ آنکھیں پتھرا گئی ہیں دل کے شیشے دھندلاگئے ہیں۔عبداللہ اور عبدالرحمن کہہ رہے ہیں کہ یہ نذر الاسلام ہے،نذرالاسلام کہہ رہا ہے کہ یہ عبداللہ ہے تو اب مشکوک کرنے یا ہونے کے لیے ہری سنگھ یا دیا رام ہونا نہیں ہے بلکہ مسلمان ہونا ہے۔

اپنوں کا بھروسا غیروں کی سازش نے لوٹ لیا ہے۔غلطیاں ادھر کی بھی کم نہ تھیں مگر ہوس اقتدار نے دولخت ہونا تو منظور کر لیا مگر معاملہ فہمی سے روکا۔

لہو گلیوں میں بہتا رہا ہے ،اپنوں میں پرایوں کا لہو۔

خاندان ٹوٹے،رشتے چھوٹے،اذہان بدلے ،اب نسلیں بدل گئ ہیں۔کلمہ وہ بھی پڑھتے ہیں ہم بھی پڑھتے ہیں،نظریہ بدل گیا ہے۔

سو کسی نے کہا تھا ناں کہ گھر کی پھوٹ جگت کی لوٹ۔

کرم فرماؤں،خود غرضوں سیاست کو مفاد کی پالش سے چمکا کر ملک توڑ دینے والوں کو سقوط ڈھاکا مبارک۔

آئیے بلوچستان چلتے ہیں۔