سفید محل کی سیر اور تاریخ

کراچی سے اپنے دوستوں اور فیملی کے ہمراہ اس جگہ کی سیر کے لیے آنے کا موقع ملا اور اس مقام کو خوابوں کی وادی قرار دیا ہے اوریہ دیگر تمام پہاڑی مقامات سے مختلف ہے جس کی وجہ یہاں کے جنت نظیر مناظر ہیں اور یہاں کے رنگ انتہائی نمایاں اور پرکشش ہیں جبکہ یہ چھوٹا سا سرسبز علاقہ پرسکون چشموں سے گھرا ہے جہاں چار سو پرندوں کی چہچہاہٹ ہے۔

پاکستان کی وادی سوات کے ملکوتی حسن کا ہرکوئی معترف ہے اور یہی وجہ ہےکہ چھٹیوں پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کو جانے والے یہاں کچھ وقت لازمی گزارتے ہیں اور ان پہاڑوں کے درمیان گھری اس خوبصورت وادی میں ایک پہاڑی مقام مرغزار ہے جو اپنے قدرتی حسن اور معتدل موسم کی وجہ سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔

سیدو شریف سے 13کلو میٹر اور مینگورہ سے تقریباً 12کلومیٹر کی مسافت پر واقع تاریخی سوات کا سیاحتی مقام مرغزار ہے اور وہاں پر منفرد فن تعمیر کا عکاس تاریخی ‘سفید محل’ ماضی کی ریاستِ سوات کے ترقی یافتہ ہونے کا ایک اہم ثبوت بھی ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں میں بھی بہت مقبول ہے۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے دامن میں واقع پرفضا مقام مرغزار اپنے قدرتی حسن اور معتدل موسم کی بدولت اگر خصوصی اہمیت کا حامل ہے تو دوسری جانب یہاں پر قائم ریاستی دور کا سفید محل بھی یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

جدید ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودو (بادشاہ صاحب) نے سفید محل کی تعمیر 1941ء میں مکمل کروائی اور اس کے لیے سنگ مرمر راجستھان سے منگوایا گیا تھا اور سفید محل کو پہلےسواتی تاج محل پھر موتی محل کہا جاتا تھا اور اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا ماربل وہی ہے جو آگرہ کے مشہور زمانہ تاج محل میں استعمال ہوا تھا۔

سفید محل کے بارے میں سوات کے شاہی خاندان کے نمائندے میاں گل شہریار امیر زیب باچا کا کہنا تھا کہ قریب 1930ء میں جب بادشاہ صاحب راجستھان گئے، تو وہ وہاں کا سنگ مرمر دیکھ کر اس کے دلدادہ ہوگئے تھے اور راجستھان اس وقت ہندوستان میں معدنیات کی صنعت کا ایک بڑا مرکز تھا جبکہ بادشاہ صاحب نے واپس آنےکے بعد اس سفید محل کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور راجستھان سے ماربل منگوایا گیا اور  1931ء میں اس سفید محل کی تعمیر شروع ہوئی تھی اور محل کا نقشہ بیلجیئم کے ایک انجینئر نے بنایا تھا۔

 

مرغزار پہاڑوں کے دامن میں واقع سوات کی ایک بہت خوبصورت وادی ہے اور انہی پہاڑوں کے دامن میں تعمیر کردہ سفید محل تقریباً 3 کنال رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس عمارت کی بلندی 35 فٹ ہے جبکہ اس عمارت کے تین حصے ہیں؛ محل کا مرکزی حصہ بادشاہ صاحب کے لیے مخصوص تھا، دوسرا حصہ وی آئی پی شخصیات کے لیے اور تیسرا حصہ اس دور کے حکمران انگریزوں اور خواتین کے لیے مخصوص تھا۔

ماہرین کے مطابق  سوات کے ریاستی دور میں سفید محل خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار ہوتا تھا  اور ریاستی دور حکومت میں جو اعلٰی شخصیات یہاں قیام کر چکی ہیں اور ان میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ، پاکستانی صدر ایوب خان اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے اور کئی اعلٰی انگریز افسران بھی چھٹیاں منانے کے لیے سفید محل کا رخ کرتے تھے جبکہ غیر ملکی سیاح بھی خاص طور پر اس محل کو دیکھنے مرغزار آتے تھے۔

سفید محل کی دیواریں اور فرش راجستھانی ماربل سے بنائے گئے ہیں اور اس کا طرز تعمیر بھی بہت عمدہ ہے اور اس محل میں ایک ڈرائنگ روم، ایک ڈائننگ ہال، ایک میٹنگ روم اور ایک بادشاہ صاحب کا اپنا کمرہ ہے جبکہ محل کے احاطے میں بھی متعدد کمرے ہیں اور جب بادشاہ صاحب گرمیوں میں مرغزار کا رخ کرتے تو ان کے اہل خانہ کے علاوہ وزیر، مشیر اور خوانین بھی ان کے ہمراہ ہوتے تھے، جو اسی محل کے مختلف کمروں میں قیام کرتے تھے۔

سفید محل میں ایک وسیع لان بھی موجود ہے جہاں بیٹھنے کے لیے ماربل ہی سے بینچ بنائے گئے ہیں اور احاطے میں ایک مسجد بھی ہے جبکہ گرمیوں کے موسم میں جب بادشاہ صاحب سفید محل آتے تو جملہ ریاستی امور یہیں طے ہوتے تھے اور اسی سفید محل کی بدولت مرغزار وادی سوات کا گرمائی دارالحکومت ٹھہرا تھا اور یہیں سے شاہی فرمان جاری ہوا کرتے تھے۔

بادشاہ صاحب کے انتقال کے چند سال بعد عمدہ طرز تعمیر کے اس نمونے کو سیاحتی مقام میں تبدیل کردیا گیا اور  1972-73 میں سفید محل کو با قاعدہ طور پر ایک ہوٹل کا درجہ دے دیا گیا اور  اب یہی محل سیاحتی قیام کے لیے سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے جبکہ بادشاہ صاحب کا ذاتی کمرہ اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔

پورے خطے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی جسے وکٹورین طرز تعمیر پر بنایا گیا تھا اور سفید محل کی چھت مختلف تہوں پر مشتمل ہے جن کی شروعات کانسی کی تہہ سے ہوتی ہے پھر دیودار لکڑی کی تہہ، چونے کی تہہ، مٹی کی تہہ اور بیرونی سمت لوہے کے ساتھ دیودار کی تہہ جبکہ چھت میں استعمال ہونے والا کانسی بیلجیئم سے درآمد کیا گیا تھا اور اس کی تعمیر کے لیے ترکی سے کاریگر آئے تھے۔

عمارت میں لگائے گئے برقی آلات اور چھت میں لگے پنکھے (جو آج بھی کام کرتے ہیں) انگلستان سے منگوائے گئے تھے اور چھت کی اونچائی کی وجہ سے گرمی نہیں ہوتی اور محل کو بھی اضافی قوت فراہم ہوتی ہے جبکہ محل کی تعمیر میں سیمنٹ کی جگہ چونے کو تعمیراتی مواد کے طور پر استعمال کیا گیا اور سبزہ زار میں گھرے سفیدمحل کا حسن دیکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔

 جب ہم وہاں گئے تو ہم نے مرغزار کی وادی کا بہت نام سن رکھا تھا، یہاں آ کر بہت اچھا لگا اور سفید محل اور مرغزار کی خوبصورتی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی جبکہ یہ ایک بہت ہی پرسکون علاقہ ہے اور جس طرح یہ محل بنایا گیا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

سفید محل کے کھلے حصے میں کونے پر ایک مسجد بھی بنائی گئی اور بادشاہ صاحب یہاں وزیروں، مشیروں اور خوانین کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے اور قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے جبکہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک ہائیکنگ ٹریک بھی تھا، جس پر بادشاہ صاحب اپنے رفقاء کے ہمراہ ہائیکنگ کیا کرتے تھے اور یہاں چنار کا ایک 200سال پرانا درخت بھی موجود ہے جو وسیع حصے کو سایہ فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جو سردیوں کے علاوہ پورا سال ٹھنڈے پانی  سے لوگوں کو مزہ دیتی ہے۔

آج کل جو سیاح وکٹورین طرز تعمیر والے اس محل کا رخ کرتے ہیں انہیں یہی گلہ رہتا ہے کہ سوات میں مرغزار اور اس محل تک آنے والے سڑک بہت خستہ حال ہے جبکہ وہاں کا پرسکون ماحول دیکھ کر ساری تھکن دور ہوجاتی ہے جبکہ اگر وہاں تک آرام دہ عوامی آمدو رفت کے امکانات بہتر بنا دیے جائیں تو سیاحت کو ترقی دینے میں آسانی ہو گی اور اقتصادی طور پر اس کا فائدہ مرغزار کے علاوہ سوات کے پورے علاقے کو پہنچے گا۔

واضح رہے ایک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ سفید محل میں استعمال ہونے والا ماربل دراصل وہی ماربل ہے جو تاج محل (آگرا، ہندوستان) میں استعمال ہوا ہے۔

اگر موقع ملے اور کورونا ایس او پیز کا خیال رکھا گیا ہے ہو تو سوات سیرو تفریح کے لئے بہت اچھا مقام ہے اور یہاں کے سیب بہت عمدہ ہوتے ہیں۔

دوسری جانب  مالم جبہ ٹاپ پر چڑھتے ہوئے راستے میں تقریباً تیس چھوٹے بڑے ہوٹل اور چائے کے کیبن ملتے ہیں اور یہ سہولیات پہلے صرف سیزن میں کھلی رہتی تھیں مگر اب موسم سرما میں سیاحوں کی غیرمعمولی آمد کی وجہ سے سال بھر دستیاب ہیں۔

حصہ
mm
محمد حماد علی خان ہاشمی نے ذرائع ابلاغ میں جامعہ اردو یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے اور اس کے ساتھ پروڈکشن کے کئی کورسیز بھی کئے جبکہ 12 سال سے صحافتی دنیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پچھلے 3 ماہ سے روزنامہ جسارت ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سینئر کالم نگار، صحافی اور اردو کے استاد مرحوم سید اطہر علی خان ہاشمی کے بیٹے ہیں اور مختلف اخبارات ، میگزینز اور سماجی ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جرنلزم کی دنیا میں قدم سندھی چینل آواز ٹی وی سے کیا اس کے بعد فرنٹیر پوسٹ پر رپورٹنگ بھی کی اور 6 سال سماء ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔