یہ جو دس کروڑ عوام ہیں

ستر کی دہائی میں جب صدر ایوب خان نے ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا تو ملک کے طول وعرض سے صدائے احتجاج بلند ہونا شروع ہوگیا۔اس نوائے احتجاج میں ہر مکتبہ فکر کے  لوگوں نے شمولیت اختیار کرنا شروع کردی۔سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ اہل دانش نے بھی حکومت کی طرف سے قیمتوں کی گرانی کے خلاف ایسے ایسے مظاہرےکیے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔خاص کر ایسے شعرا کرام جو مزاحمتی ادب یا انقلابی شاعری کے سرخیل تھے۔ان شعرا میں سے حبیب جالب ایسا نام ہیں جنہوں نے اپنے قلم وقرطاس کو حکومت کے خلاف ایسا استعمال کیا کہ ان کے قلم سے نکلنے والا ایک ایک حرف حکومتی ایوانون میں آگ لگا دیتا۔خاص کر ان کی یہ نظم نہ صرف زبان زد عام ہوئی بلکہ ان دنوں آمریت کے خلاف ترانہ کی سی صورت اختیار کر گئی۔

بیس روپے من ہے آٹا

اس پر بھی ہے سناٹا

صدر ایوب زندہ باد

یعنی آٹے کی قیمت صرف بیس روپے من ہوئی تو عوامی احتجاج کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کی کوچہ و بازار میں اس مہنگائی کے خلاف آوازیں سنائی دینے لگیں۔جالب نے نہ صرف اس حکومتی فعل کے خلاف آواز بلند کی بلکہ انہوں نے اس کا ذمہ دار ان لوگوں کو بھی ٹھہرایا جو حکومتی اقدامات کے حق میں تھے۔اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ:

میں نے اس سے یہ کہا

یہ جو دس کروڑ ہیں

 جہل کانچوڑ ہیں۔

حالیہ حکومتی جلسوں اور حزب مخالف کے احتجاجی جلسوں میں عوام کا کرونا کو لے کر ایس او پیز کا خیال نہ کرتے ہوئے بے دریغ شامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ شاید جالب کے دس کروڑ اب بائیس کروڑ ہو چکے ہیں۔لیکن فکر ان کی اب بھی سو ئی ہوئی ہے،جہالت کا آج بھی راج ہے۔واقعی بے شعور قوم ہے،ایسے لوگ زندگی کا روگ اور معاشرہ پر ماسوا بوجھ کے اور کچھ نہیں ہوتے۔وہ اس لیے جو عوام شخصیت پرستی میں بت پرستی کی حد تک چلی جائے اس کی اخلاقی اقدار کا جنازہ تیار اور لاش دفنانے کے قریب ہوتی ہے۔یہ جہالت ایسے ترقی پزیر ممالک  میں زیادہ تر دیکھنے میں آتی ہے جہاں ابھی تک جمہوری نظام حکومت کا تجربہ کیا جا رہا ہو۔جیسا کہ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ راہنما جو جمہوریت،جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں وہ اپنے ہی ہاتھوں جمہور کی خواہشات کا قتل بھی کررہے ہوتے ہیں،وہ قتل حکومتی ایوانوں میں مہنگائی کی صورت میں  ہو سکتا ہے،سماجی و سیاسی استحصال کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے یا پھر عوام میں ذہنی انتشار پیدا کر کے بھی کیا جا سکتا ہے۔اور یہی جمہور کا جمہوری قتل حزب مخالف کی طرف سے حکومت کے خلاف تحاریک میں صورت میں عوامی اجتماعات میں ایک بریانی کی پلیٹ پر ذلیل ورسوا کر کے بھی کیا جا سکتا ہے۔تھوڑی دیر کے لئے حالیہ اپوزیشن کے جلسوں میں عوام کو تحریک دلانے والی پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں کی بصیرت کا اندازہ لگائیں کہ دو بڑی جماعتیں جب اقتدار میں رہیں تو ان بھوکے ننگے لوگوں کے لئے کیا اقدامات کیے۔ملکی وسائل کے کس حد تک قابل استعمال لایا گیا،قرض پر قرض لے کر ملک کو بین الاقوامی اداروں کے ہاں گروی رکھ کر آج اپنے سیاسی جلسوں میں ملک اور جمہوریت کے مامے بن کر ایک بار پھر سے عوام کو ’’پھدو‘‘بنانے نکل پڑے ہیں۔

لیکن قصور ایسے راہنماؤں کا نہیں ہے۔قصور ان کی بھوک،ننگ افلاس،بے روزگاری،عدم استحکام اور ذہنی انتشار کا ہے جو انہیں سیاستدانوں کی پیدا کردہ ہیں۔مگر عوام شعور نہیں رکھتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن یہی راہنما ہمارے دکھوں کا مداوا کریں گے۔اے سیدھی سادھی بدھو عوام!! اگر ان لوگوں نے ایسا کرنا ہوتا تو چالیس سالوں میں کرچکے ہوتے۔ہر مشکل وقت میں دبئی اور انگلینڈ کی سرزمین کو اپنا ٹھکانہ نہ بناتے۔طرح طرح کے حیلے بہانے کر ملک سے راہ فرار اختیار نہ کرتے۔اپنی جگہ اپنے بچوں کو مسند نشینی کے خواب نہ دکھاتے،انہیں اپنا جانشین نہ بناتے۔باپ کے بعد بیٹا اور بیٹی سیاسی وراثت کے امین نہ ہوتے۔لیکن میں پھر کہوں گا کہ قصور ایسے راہنماؤں کا نہیں ہے بلکہ جالب کی بات بالکل سچ ہے کہ دس کروڑ بے شعور ہیں جو اب بڑھ کر بائیس کروڑ ہو گئے ہیں۔ان بائیس کروڑ عوام کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہے اور وہ کیسے ہوں گے ؟بالکل ویسے ہی جیسے کہ مغربی ممالک میں ہوتے ہیں کہ کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی،یعنی عوام اپنا احتجاج اپنے ووٹ کے صحیح استعمال سے کرتے ہیں۔وہ اس لیے کہ ایسے ممالک میں عوامی شعور یہ ہے کہ ہم ان راہنماؤں کے غلام نہیں ہیں۔اگر ایک سیاستدان ملک اور عوام کی فلاح کے لئے اچھا کام نہیں کررہا ہے تو اسے دوسری بار منتخب نہ کیا جائے اور اس انتخاب کا حق عوام کے پاس ہوتا ہے اور عوام اپنے ووٹ کے ذریعے سے ایسے نمائندوں کو رد کر دیتے ہیں۔یہی عوامی جمہوری سوچ پاکستان میں بھی پنپنے کی ضرورت ہے۔جب تک عوام میں یہ شعور پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک عوام،جالب کی اس نظم کی صداقت ہوتی رہے گی کہ

 یہ جو دس کروڑ ہیں

جہل کا نچوڑ ہیں

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔