تربیت گاہیں اور ان کی حکمتیں‎

ایک عمومی فرد کی جماعتی گھرانے میں شادی ہوئی، شادی کے کچھ سالوں بعد اس سے ملاقات نے بہت ساری باتیں ہمیں بتائیں اور ان گنت جماعت کی خصوصیات سے متعارف کرایا۔

کہنے لگی یہ تم لوگوں کی تربیت گاہیں کتنی اچھی ہوتی ہیں نا!!!!

ہم نے کہا :ہاں!  ان تربیت گاہوں کے پروگرامات بہت اچھے ہوتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر وقت وحالات

کے مطابق اور اچھے مقررین کو بلا کر یہ سارے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔

کہنی لگی پروگرامات تو آگے کی بات ہے یہ تم لوگوں میں ٹیم ورک،فرد کے اندر ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے اس تربیت گاہ میں ہی مختلف ذمہ داریوں کی ادائیگی ،منظم طریقہ سے کام کرنا ،ان تربیت گاہوں میں فرسٹ ایڈ باکس کا موجود ہونا،تو چپل رکھنے سے لے کر افراد کا قطاروں میں بیٹھنا ،استقبالیہ کا موجود ہونا جن کے افراد آپ کو خوش آمدید بھی کہتے ہیں اور یہ بھی نوٹ کرتے ہیں کہ کتنے افراد آئے ،ان کے فون نمبر نوٹ کرنا کہ بعد میں بھی ان افراد سے بات ہوسکے اور اس استقبالیہ پر اضافی قلم ،کاپی کی سہولت کہ کوئی فرد بھول آئے تو حاصل کر لے اور فرسٹ ایڈ باکس کا بھی موجود ہونا ، اور اسٹیج پر جالی والے دوپٹوں سے پھولوں کا لگا ہونا کہ ہم تو اس دوپٹّے کا کبھی یہ استعمال ہی نہ کر سکے، کہ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ کام تزءین وآراءش کے کارکنوں نے کیا ہے، تمھاری تربیت گاہیں کیا کچھ سکھادیتی ہیں تم لوگوں کو!!!!

اور وہ گوشہ اطفال، کہ بچوں کو لے کر  جاؤ تو بے فکر ہو کر پروگرام سُن لو کہ اتنی محبت سے تمھارے افراد کی بچیاں ہمارے بچوں کو سنبھال لیتی ہیں ،انھیں اچھی باتیں کھیل کھیل میں سکھاتی ہیں ،انھیں تحفے تحائف دیتی ہیں،کہ اتنا تو پیار شاید ہم خود بھی اپنے بچوں کو نہیں دے پاتے ، اس بچوں کے کارنر میں اب وہ بولتے وقت اسے یہ الفاظ یاد نہیں آرہے تھے کہ گوشہ اطفال ہم نے یاد دلایا تو اسے یاد آیا ہاں ہاں وہی، اس میں بچوں کے لیے غبارے،کلرز اور بسکٹس وغیرہ، نہ جانے کیا کیاکہ بچوں کی ماؤں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے،بہن کیا پلاننگ سیکھتے ہو تم لوگ ان تربیت گاہوں سے،اور وہ  زر تعاون کے ڈبے کی یاد دہانی اسٹیج سے کئی بار کرائی جاتی ہے لیکن افراد کو پکڑ پکڑ کر نہیں کہا جاتا کہ پیسے ڈال دو،  اس میں یہ طریقہ دوسرے کی عزت نفس کو برقرار رکھنا نہیں سکھاتا تو اور کیا سکھاتا ہے

اور بیجز لگائی کارکن چائے اور پانی کے علاوہ  ہمہ وقت خدمت پر معمور ہوتی ہیں۔

ہم تو سمجھتے تھے کہ مختلف کارکنان کا یہ بیجز لگانا اس لیے ہوتا ہے کہ ایک ذمہ داری نبھانے والے افراد دوسرے کو پہچان سکیں کہ اس کی ڈیوٹی اور ہماری یکساں ہےاور بہ وقت ضرورت ایک دوسرے کو پکار سکیں، لیکن کارکنِ طعام، کارکن صفائی،کارکنِ نظم و ضبط یہ سب

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

کا راز سمجھانے کے لیےہوتی ہیں، کارکن نظم و ضبط سے تو ہم نالاں ہی رہتے تھے کہ یہ تو پروگرام کے دوران ذرہ بھی باتیں نہیں کرنے دیتیں لیکن جب ہماری ساتھی نے کہا کہ ہمیں وہ والی کارکن ،وہ کیا ہوتی ہیں جو باتیں نہیں کرنے دیتیں ،کچھ لکھا ہوتا ہے ان کے بیج پر “کارکن نظم و ضبط”اور ابھی ہم آگے بھی بولنے والے تھے کہ ہاں بھئ بڑی ہی سخت ہوتی ہیں کہ مجال ہے کہ پروگرام کے دوران ذرا ہنسی مذاق کرنے دیں۔

لیکن وہ کہنے لگی یہ والی کارکن بہت پیاری ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ ہمیں ایک راز معلوم ہوا ہم حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے کہ اتنے میں وہ بولی یہ والی کارکن “وقفہ”میں باتیں کرنے کو منع نہیں کرتیں، اس پر ہم نے اپنی ہنسی  کو چھپاتے ہوئے کہا :تو تم کیا چاہتی ہو کہ کھانے و نماز نے وقفہ کے دوران بھی افراد کچھ نہ بولیں، ارے بہن یعنی انھوں نےاور “کسی بھی کام کو اس کے وقت پر کرنے کا راز سمجھا دیا” ہم ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگے کہ کہتی تو وہ ٹھیک تھی۔

اور یہ کارکن صفائی جن کے اپنے گھروں میں تو ماسیاں ہوتی ہیں لیکن اطاعتِ امیر ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کہ کبھی جھاڑو پکڑے تو کبھی ڈسٹ بن کے شاپر پکڑے  نظر آتی ہیں۔

اور تزءین و آرائش کی ذمہ داری لگنے سے بھی تو تم لوگ گھروں کی بناوٹ وسجا وٹ بھی سیکھ جاتے ہو۔

اور دوست تمھارے لیے تو یہ بلکل عام سی بات ہو لیکن میرے لیے انھونی بات تھی کہ جب کھانے کے وقت ساتھ بیٹھی ساتھی نے ایک روٹی کھانے کے بعد دوسری روٹی کے لیے ہاتھ روک لیے تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟کیوں نہیں لے رہیں اور روٹی ؟

تو پتہ ہے اس نے کیا کہا !!!!اس نے کہا کہ میری زیادہ روٹی کھانے سے کوئی ساتھی بھوکا نہ رہ جائے۔

اور میں اس کی شکل دیکھتی رہ گئ تھی،حالانکہ اس نے بھی تو زر ِتعاون دیا ہوگا،ہم تو شادی میں جاتے وقت اگر پانچ سو کا نوٹ دیں تو کوشش کرتے ہیں کہ پورے پانچ سو کا کھانا کھا کر آئیں،دوسرےبھی کھاناکھا لیں، یہ تو ذہن میں ہی نہیں آتا۔اور وہ جذبات کو گرمانے والے ترانے اور پیش کیے جانے والے خاکے،اور آخر میں دیے جانے والا “محاسبہ کا فارم”،اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی محاسبہ!!!!!!معلوم ہے طعام کے حصہ میں نے کیا لکھا؟؟؟؟

میں نے تو لکھ دیا بس کولڈرنک بھی ہونا چاہیے تھی کہ باقی سب کچھ تو بہت اچھا تھا۔

اور میں تو نماز پڑھنے کی بھی عادی نہ تھی، بڑے ڈرتے ہوئے گئی تھی اس تربیت گاہ میں اپنی جٹھانی کے کہنے پر،سوچا تھا کوئی کہے گا کہ نماز پڑھ لیں تو بہانہ بنا دونگی، لیکن وہاں نماز پڑھنے کی اسٹیج سے تو یاد دہانی کرائی گئی لیکن کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر نماز کے لیے کھڑا نہ کیااور میں سوچنے لگی کہ شکر زبردستی نماز نہیں پڑھاتے،لیکن باقی افراد توخودہی وقفہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اور تو اور نہ ہی میرے ہلکے جارجٹ کے دوپٹہ پر کسی نے اعتراض کیا،کہ تمھارے ہاں شاید سمجھانے کا ،تربیت کرنے کا بہت ہی پیارا انداز ہے اور افراد ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بھی بہت سی اچھی چیزیں سیکھتے ہیں اور اس کی یہ تمام باتیں سُن کر میں سوچ رہی تھی کہ میں تو صرف ان تربیت گاہوں میں پروگرامات کو سننے  کے لیے جاتی تھی یا پھر اپنے اندر مثبت تبدیلیوں کو پیدا کرنے کےلیے،یا پھر  اپنوں سے ملنے کے لیے جاتی تھی اور یہ ایک میری پیاری تربیت گاہ کی ان گنت حکمتیں سمجھا گئی۔