عہدِ ربی

اس شام وہ دونوں سمندر کنارے ڈوبتے سورج کے دلکش مناظر اور ٹھنڈی ہوا میں کہیں دور کسی غیر مرئی نکتہ پر نگاہیں جمائے کسی سوچ میں گم تھیں کہ اچانک ایک تیز ہوا کے جھونکے سے اس کا حجاب ذرا سا سرکا٬ اس نے اسے ہاتھ سے سنبھالنا چاہا لیکن ہوا کے تیز جھونکے اسے مسلسل اس کوشش میں ناکام کر رہے تھے اس نے اردگرد کا سرسری جائزہ لے کر گویا پرسکون ہوکر اسے چھوڑ دیا۔ تب ہی فجر نے اس سے کہا:

آج میں نے اللہ کا وعدہ سچ ہوتے دیکھا۔

سحر نے ناسمجھی سے سرہلایا اور پوچھا کیا؟

فجر نہایت سکون سے ایک آہ بھر کر گویا ہوئی۔ جانتی ہو سحر اللہ کا وعدہ کیا ہوتا ہے؟

سحر نے گویا ایک ایک لفظ بہت سوچ کر جملہ مکمل کیا۔۔

جو اللہ نے ہم سے کہا ہے قرآن میں کہ اگر ہم نے اللہ کی مانی تو اللہ ہمیں بہترین جزا دیں گے۔

اس جواب پر فجر ہلکا سا مسکرائی اپنے بیگ سے پن نکالی اور سحر کے حجاب کو ایک ہاتھ سے پن میں قید کرتے ہوئے گویا ہوئی:

سحر تمہیں وہ حدیث یاد ہے جو کل استانی نے حدیث کی کلاس میں پڑھائی تھی٬ سحر نے کچھ سوچتے ہوئے یاد آنے پر جوش سے کہا:

ہاں مجھے یاد ہے استانی نے کہا تھا کہ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے٬ اور اسے یہ حدیث اس لیے بھی یاد تھی کہ اس نے اس کے روایوں کی سند میں ایک نام حضرے ابو صالحؓ بھی پڑھا تھا۔

لفظ صالح کہتے وقت وہ ہمیشہ اس پر رک کر ذرا زور دے کر ص کو موٹا اور ح کی عربی تلفظ سے درست ادائیگی کرنے کی کوشش کرتی تھی٬ اور اس کا کہنا تھا کہ اسے یہ الفاظ صالح اور صالحہ بہت پسند ہیں۔ تلاوت کے دوران بھی وہ لفظ صالحین پر خاص طور پر رک کر بہت توجہ سے اسے  صحیح مخارج کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرتی تھی۔

لفظ صالح کو دوبارہ محبت سے ادا کرتے ہوئے اس نے کہا :حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ناں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ فرماتے ہیں:

 میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں۔(صحیح بخاری: 7405)

اس نے پوری حدیث کا ترجمہ سنادیا اور پھر کچھ سوچ کر بولی تم اللہ کے کون سے وعدہ کی بات کر رہی ہو؟” تم نے کیا دیکھا فجر؟”

اس معصومانہ سوال پر فجر نے اسے اس ہی معصومیت سے دیکھا اور کہنے لگی:

یہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر کوئی بندہ اللہ کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو اللہ اس کی طرف دو ہاتھ قریب ہوجاتے ہیں اور اگر وہ چل کر جائے تو اللہ تعالیٰ دوڑ کر اس کے پاس جاتے ہیں۔

اب یہاں رکو اور سوچو۔۔!! “میں شام کی چائے پر تمہارے گھر آؤں اور تمہیں کال پر اپنی آمد کی اصلاع دوں تو تم زیادہ سے زیادہ دروازے پر کھڑی ہوکر میرا استقبال کروگی ناں؟ یا مجھ سے پہلے میرے گھر پہنچ جاؤگی؟اب چونکہ میری منزل تمہارا گھر ہے تو مجھے ہی آنا ہوگا ناں تمہارے گھر؟”

لیکن یہاں دیکھو خالقِ کائنات اپنی مخلوق سے کیا فرماتے ہیں” تم بڑھو تو صحیح آگے وہ سنبھالیں گے٬ تم پہلا قدم اٹھاؤ تو صحیح اگلا ہر قدم تمہارا تمہارے رب کے ساتھ ہوگا٬ کتنا پیارا انداز ہے ناں اللہ کا، سحر۔۔۔!!!”

سحر نے کوئی جواب نہیں دیا٬ وہ اب فجر کو دیکھ بھی نہیں رہی تھی وہ تو شاید دور سمندر کی لہروں میں سمندر کے رب کو تلاش کر رہی تھی٬ وہ دور کہیں پانی اور فلک کے بیچ کوئی راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔

فجر نے اسے محبت سے دیکھا اور بات جاری رکھی۔

“کیا تم جانتی ہو سحر۔۔!! یہاں اللہ کے دوڑ کر بندے کے پاس آنے سے کیا مراد ہے؟”

اس نے روانی میں پھر ایک سوال کا رخ سحر کی طرف کردیا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب سحر فی امان اللہ کہنے تک کچھ نہیں بولے گی٬ اور پھر جیسے اس بات کا احساس ہوتے ہی دوبارہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی۔

“تم نے کبھی سوچا ہے سحر۔۔!!  ہمارے مشکل ترین کام جن کا ہم کبھی تصور تک نہیں کر سکتے تھے٬ یا وہ خواہشات جن کو پانے کے لیے ہم حتی الامکان کوششیں کرتے ہیں وہ بعض اوقات ہمیں بہت آسانی سے مل جاتی ہیں اور ہم بس حیران ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ سوچنے کا تکلف تک نہیں کرتے کہ یہ سب ہوا کیسے؟ آخر کس نے کیا یہ سب؟

یہ جانتے ہوئے کہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے اور ہماری تمام خواہشات اللہ ہی مکمل کرتے ہیں٬ ہم کیوں اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے؟ ہم کیوں مسبب الاسباب کے آگے سجدۂ شکر بجا نہیں لاتے؟ ہم کیوں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھ کر اپنی ذات سے جوڑ دیتے ہیں؟”

سحر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو اب بہتے چلے جارہے تھے بنا پلک جھپکے وہ مسلسل اس ہی نقطہ پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔

“تم یاد کرو سحر۔۔!! جب تم نے نیت کی تھی کہ تم اب نماز کی پابندی کروگی تو کس طرح ہر نماز پر تمہیں وقت مل جایا کرتا تھا٬ حتیٰ کہ تم فجر میں بھی بآسانی اٹھ جایا کرتی تھیں اور تہجد بھی پڑھنا کس قدر آسان ہوگیا تھا۔ حالانکہ اس سے دو ماہ پہلے تک تم مجھے کہتی تھیں تم سے نماز کی پابندی نہیں ہوتی۔ اور اس دن خرم بھائی کی بارات کے دن جب سب لوگ عشاء سے پہلے روانہ ہونے کو تیار تھے اور تم نماز کے انتظار میں بیٹھی تیار ہونا شروع نہیں ہوئی تھیں اور تم نے مجھے ڈرتے ہوئے فون کیا تھا کہ اب سب تمہیں ڈانٹیں گے اور میں نے جب کہا گھر آکر سکون سے پڑھ لینا تو تم نے کہا تھا نہیں ہم رات مشکل ہی گھر واپس آسکیں اور وہاں نماز پڑھنا تمہارے لیے مشکل ہوتا ابھی تم اس پریشانی میں ہی تھیں کہ اچانک تمہاری امی نے آکر تمہیں بتایا تھا کہ بارات کو کچھ دیر ہوجائے گی، سو اب نماز کے بعد ہی جائیں گے اور ان کے الفاظ میں نے بھی سنے تھے جو انہوں نے کہے تھے:”

“سحر بیٹا تم آرام سے نماز پڑھ لو ہم ایک گھنٹے بعد جائیں گے اور وہاں مشکل ہوگی اسلیے تم ابھی پڑھ لو۔”

“مجھے تمہارے وہ شکر کے آنسو اور وہ سسکیاں جو تم خوشی سے نہال ہوتے ہوئے لے رہی تھیں آج بھی یاد ہیں سحر۔یہ اللہ کا وعدہ نہیں تو اور کیا ہے سحر۔۔!!”

سحر بالکل محو ہوکر اسے سن رہی تھی٬ آنسوں مسلسل اس کی آنکھوں سے لڑیوں کی صورت بہے چلے جارہے تھے٬ اچانک ایک ہوا کے جھونکے سے اس کے حجاب کا دوسرا سرا اڑ کر اس کی آنکھوں پر آگیا٬ تب گویا وہ فجر کی باتوں کے سحر سے نکلی تھی۔ فجر ایسی ہی تھی لاجواب کردینے والی٬ خالق کو کائنات میں ڈھونڈ لینے والی٬ تخلیق سے خالق تک کا سفر لمحوں میں کرلینے والی٬ وہ ہر وقت بس اللہ ہی کی بات کیا کرتی تھی٬ وہ کہتی تھی اللہ کے علاوہ کوئی بات کرنے لگے تو گویا الفاظ ہی ختم ہوجاتے ہیں٬ لیکن سحر اس کی گفتگو سن کر کبھی یہ ماننے کو تیار نہ تھی کہ فجر کے پاس کبھی الفاظ ختم ہوسکتے ہیں۔

فجر اکثر سحر کو اپنی باتوں سے دنیا سے بیگانہ کردیتی تھی٬ اکثرو بیشتر سحر اور فجر کی ملاقات کا اختتام آنسوؤں پر ہی ہوتا تھا وہ اللہ کی محبت کو بیان ہی کچھ اس انداز سے کرتی تھی کہ سحر سب کچھ بھول کر اس کی باتوں میں ہی کہیں اٹک سی جاتی تھی۔ اس کی ان باتوں کے اثر ہی کی وجہ سے سحر نے اس کے ساتھ مدرسہ میں داخلہ لیا تھا ورنہ وہ تو میڈیکل کی تیاری کر رہی تھی۔

اور پھر اللہ نے اسے فجر جیسی دوست، جسے وہ اپنی پہلی (دین کی ) ٹیچر  کہتی تھی عطا کیا اور فجر کا آنا تھا کہ سحر کی آنکھیں کھل گئیں جو  کسی خوابِ غفلت میں ایسی بند ہوئی تھیں کہ اسے ان کے بند ہونے کا احساس تک نہ ہوتا تھا، اور پھر جس طرح مؤذن صاحب فجر کی اذان میں “الصلاۃ خیر من النوم” کہتے ہوئے امتِ مسلمہ کو نیند سے بیدار کرواتے ہیں فجر کا آنا بھی اس کی زندگی میں کسی نعمت سے کم نہ تھا۔