کمیونیکشن گیپ اور جماعت اسلامی

سب سے قریب کی مثال ہمارے سامنے تبلیغی جماعت کی ہے ان کا کوئی میڈیا سیل ہے نہ ان کے پاس کوئی سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری اور اسسٹنٹ سیکرٹری اطلاعات،وہ کہیں بینر اشتہارات نہیں لگاتے پمفلٹ تقسیم نہیں کرتے لیکن یہ گلی گلی محلے محلے پھرتے ہیں بدھ کے بدھ کے مقامی گشت پر ہر دروازے پر دستک دیتے ہیں اپنا پیغام پہنچاتے ہیں ان کا یہ طریقہ اس قدر بھرپور اور موثر ہے کہ رائے ونڈ ہو یا اورنگی ٹاؤن کراچی ان کے اجتماعات میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی یہ سارا کمال فرد کا فرد سے رابطے کا ہے

اب اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی ،جمیعت علماء اسلام ،جمعیت علماء پاکستان اور دیگر دینی مذہبی جماعتوں کو دیکھ لیں ان کے زوال پذیر کام کا بڑا سبب ہی یہ کمیونیکشن گیپ ہے اب اسکے پیچھے تساہل پسندی ہے یا انا پسندی ،اخلاص کی کمی یا وژن کا فقدان عوامل تلاش کئے جاسکتے ہیں لیکن جو چیز تلاش کرنے کی ضرورت نہیں وہ نتائج ہیں اس کمیونیکشن گیپ سے سب سے زیادہ متاثر جماعت اسلامی ہوئی ہے، پے پے درپے انتخاباتی ناکامیاں،سکڑتا ہوا حجم مسلسل شکستوں سے تھکے ماندے کارکنان اور ناامید سے ہمدرد،ایسے میں کوئی اس تعلق کی خبر گیری بھی نہ کرے تو وہ بندہ کیوں جماعت کے کھونٹے سے بندھا رہے ؟ امجد اسلام امجد نے یہ نظم لکھ کر بات ہی ختم کر دی ہے ؎

محبت کی طبیعت میں

یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے

کہ یہ جتنی پرانی، جتنی بھی مضبوط ہو جائے

اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے

کہا جاتا تھا کہ جمعیت جماعت جس میں داخل ہوجائے پھر روح کے ساتھ ہی نکلتی ہے لیکن اب جمیعت جماعت بہت پہلے ہی نکل چکی ہوتی ہے جمیعت کے کئی کارکنان کو میں جانتا ہوں جو زمانہ ء طالب علمی میں جان ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے اور آج وہ جماعت سے برگشتہ ہیں،معین اشرف جمیعت کے رکن تھے آج سعودی عرب میں ہیں اور تحریک انصاف کا دم بھرتے ہیں،کراچی کے محمد یوسف آج پیپلز پارٹی کو عزیز ہیں کتنے ہی اور نام ہیں جو اس وقت ذہن میں نہیں آرہے ۔۔۔ جماعت کی اس بے نیازی نے اسے بہت نقصان پہنچایا ہے اس کے قدم روک دیئے ہیں۔

میری عمر کراچی کے نواحی علاقے ماری پور میں گزری ہے وہاں سفیر حسن سبزواری مرحوم جماعت اسلامی کے سرگرم کارکنان میں سے تھے وہ اور انکی اہلیہ بلکہ پورا گھرانہ چلتا پھرتا جماعت اسلامی تھا،ان کی اہلیہ گدھا گاڑی پر بیٹھ بیٹھ کر آس پاس کے گوٹھوں میں کلمے کی دعوت لے کر جاتی تھیں ۔۔۔۔ اب ایسی روحیں کہاں ہیں اور وہ جماعت اسلامی کہاں ہے ؟

دوسری بڑی جماعت جمعیت علماء اسلام ہے اسے مدارس مساجد کے منبروں سے سپورٹ نہ ہو تو اسکا حال بھی جماعت اسلامی جیسا ہی ہو بلکہ شہروں میں تو ان کا کام جماعت اسلامی سے بھی گیا گزرا ہے سبب یہی کمیونیکشن گیپ ہے ان کے عمائدین ان کی حکمت عملی میں فرد کا فرد سے رابطہ نہیں ہے لیکن انہیں مسلک بچا جاتا ہے۔جے یو آئی کا میڈیا سیل تو بالکل ہی فارغ ہے راشد سومرو جیسا سخت مزاج اور زبان پر انگارے رکھ کر پھرنے والا نوجوان اس کام کے لئے موزوں ہے تو پھر اکیس توپوں کی سلامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب بات یہ ہے کہ جمیعت کی قیادت کو اسکی فکر بھی نہیں شائد وہ اسی پر راضی ہیں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کا پشتون بیلٹ ان کے لئے بہت ہے۔

حصہ
mm
احسان کوہاٹی المعروف سیلانی معروف قلم کار ہیں۔لکھنےکے لیے بلاشبہ قلم و قرطاس ہی کا سہارا لیتے ہوں گے مگر ان کی تحریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاہی نہیں بلکہ اپنے خونِ جگر میں ڈبو کر فگار انگلیوں سے لکھ رہے ہیں۔۔سچے جذبوں اور احساس کی فراوانی صرف سیلانی ہی کے قلم میں ملے گی۔گزشتہ دو دھائی سے روزنامہ امت کراچی میں سیلانی دیکھتا چلا گیا کہ عنوان سے لکھ رہے ہیں ۔آج کل ایک نجی ٹی ؤی چینلز میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔