ڈاکٹر معراج صاحب کے لئے دعائیں

لگ بھگ چار پانچ برس پرانی بات ہوگی ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کے مہمان خانے میں وہی موضوع زیر بحث تھا جو گذشتہ روز اسلام آباد میں میرے غریب خانے پر انکی آمد کا سبب بنا. ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی جماعت اسلامی کے ان لوگوں میں سے ہیں جو جماعت سے دور ہونے والوں پر جلتے کڑھتے ہیں انکی سعی ہوتی ہے کہ لوگ جڑ کر رہیں اور جماعت اسلامی کا اثاثہ بنے رہیں اور یہ جماعت اسلامی کی موجودہ روش کے ساتھ ممکن نہیں ان سے تو وہ لوگ بھی نہیں سنبھالے جاتے جنہیں درسگاہوں میں اسلامی جمعیت طلباء تراش خراش کر جماعت کے حوالے کرتی ہے پرلے درجے کی ہڈ حرامی جماعت اسلامی کی قیادت میں گھسی ہوئی ہے اور انہیں احساس تک نہیں۔

ڈاکٹر صاحب اسلام آباد ائیر پورٹ سے سیدھا میرے گھر تشریف لائے جس اخلاص اور محبت کی توقع تھی وہی ان کے معانقے اور مسکراہٹ میں ملی انہوں نے یہ بتا کر خوشگوار حیرت میں ڈال دیا کہ جماعت اسلامی کی جانب سے انہیں میڈیا سے تعلقات کا نگراں مقرر کیا گیا ہے لیکن بھیا! یہا‍ں نگرانی کیا کریں گے یہاں بچا ہی کیا ہے؟ وہ محبتیں جو فکری اختلاف رکھنے والے صحافیوں کو بھی جماعت سے قریب رکھتی تھیں اب عنقا ہیں میڈیا منیجمنٹ تو گئی چولہے میں…. انہیں میڈیا میں تعلقات کا احیاء کرنا ہوگا یہاں تساہل پسندی اور ترجیحات کی فہرست نے بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔

وہ اور جماعت اسلامی جانتی ہے کہ میں دائیں بازو کا صحافی ہو‌ں جماعت اسلامی سمیت دینی جماعتوں کی طرف فکری جھکاؤ رکھتا ہوں اس فکری میلان کے باوجود اسلام آباد جماعت اسلامی کی قیادت کی بے اعتنائی دیکھیے کہ صرف ایک بار جماعت اسلامی کے ایک صاحب رات میرے گھر میری سالگرہ پر کیک لے کر آئے اور وہ بھی جماعت اسلامی منصورہ کے قیصر شریف صاحب کی ہدایت پر، اسلام آباد کی جماعت اسلامی کو تو کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ ملنے ملانے کو آئیں یا بلا لیں سنا ہے کوئی رندھاوا صاحب یہاں کے امیر ہوتے ہیں خدا شاہد ہے مجھے دو برس ہو گئے یہاں رہتے ہوئے ان سے ملاقات نہیں ہوئی نہ انہوں نے ضرورت سمجھی نہ میں نے مناسب جانا کہ بن بلائے چلا جاؤں وہ میرے سامنے آجائیں تو میں ان میں اور چوہدری نور بخش میں فرق نہ کر سکوں گا۔

یقیناً یہ انکی نہیں انکے نشرو اشاعت کے شعبے کی ذمہ داری تھی کہ وہ میڈیا کے لوگوں سے ان  کی علیک سلیک کروا دیتے ،ہوسکتا ہے ہوتی ہو اور میں اس قابل نہ ہوں … ڈاکٹر صاحب ہمارے حوالے سے حسن ظن کا شکار ہیں اسی لئے وہ ہمیں کھنچا کھنچا سا دیکھ کر چلے آئے اور ہم نے بھی بلا کم و کاست کہہ دیا کہ جب اس قسم کے سست الوجود لوگ کاہلی اوڑھ کر کسی بھی تحریک کے َذمہ دار بنیں گے تو اسکا حال جماعت اسلامی سے ہٹ کر کیا ہو گا؟

حصہ
mm
احسان کوہاٹی المعروف سیلانی معروف قلم کار ہیں۔لکھنےکے لیے بلاشبہ قلم و قرطاس ہی کا سہارا لیتے ہوں گے مگر ان کی تحریر پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاہی نہیں بلکہ اپنے خونِ جگر میں ڈبو کر فگار انگلیوں سے لکھ رہے ہیں۔۔سچے جذبوں اور احساس کی فراوانی صرف سیلانی ہی کے قلم میں ملے گی۔گزشتہ دو دھائی سے روزنامہ امت کراچی میں سیلانی دیکھتا چلا گیا کہ عنوان سے لکھ رہے ہیں ۔آج کل ایک نجی ٹی ؤی چینلز میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔