گلوبلائزیشن کے فوائد و نقصانات

اقوام عالم نے 1930ء میں جب گریٹ ڈپریشن کا سامنا کیا اور اس کے اثرات کو مکمل طور پر جھیل لیا تو مکس اکانومی کے نام سے ایک ٹرم متعارف کروائی گئی، جس کے تحت حکومتوں اور پرائیویٹ سیکٹر نے مل جل کر عالمی معیشت کو سہارا دیا مگر پرائیویٹ سیکٹر نے ہمیشہ کی طرح یہاں پر بھی جھول مارا اور اشرافیہ کے ساتھ مل کر حکومتوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔ تبھی ایک نیا نظام عالمی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آگے آیا جسے دنیا اسٹیٹ پروٹیکشنزم کے نام سے جانتی ہے۔ اب کی بار حکومتوں نے اپنی رٹ قائم کی اور پرائیویٹ سیکٹر پر کئی ایک پابندیاں عائد کر دیں۔ پرائیویٹ سیکٹر پر پابندیوں نے انہیں آزادانہ ترقی کرنے سے روک دیا اور پبلک سیکٹر میں بیوروکریسی اور دیگر حکومتی اہل کاروں کی کرپشن کی وجہ سے معیشت میں ڈیولپمنٹ اور بہتری کے بجائے خرابیاں نمودار ہوئیں اور 1991 تک ان انڈر ڈیویلپڈ اور پسماندہ ملکوں میں شدید معاشی بحران کی صورتحال پیدا ہوئی۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ دنیا کے سرمایہ داروں نے بہت ترقی کی جس کے نتیجے میں وہ عالمی سامراجی شکل میں تبدیل ہوگئے۔ اس طرح ان بڑی بڑی ملٹی نیشنلز اور مالیاتی اداروں نے دنیا کے معاشی کردار کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی خاطر پھر سے نئی تھیوری دی جسے ہم گلوبلائزیشن، تھیچرائزیشن اور ریگنامکس کے نام سے جانتے ہیں۔

گلوبلائزیشن سے مراد مختلف ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا وہ پھیلاؤ ہے جس کے نتیجے میں ایک عالمی معیشت تخلیق ہوئی ہے۔ جس نے ہر قومی معیشت کو دیگر معیشتوں کا محتاج بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ملک خود کفیل نہیں ہے۔سب کو دوسرے ممالک کے ساتھ پیداواری اشیاء کے تبادلے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک مربوط عالمی معیشت بذات خود کوئی منفی چیز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر ایک ہم آہنگ عالمی منصوبہ بندی پر مبنی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے۔ گلوبلائزیشن کو مختصرا ہم مختلف ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا وہ پھیلاؤ کہہ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک عالمی معیشت تخلیق ہوتی ہے۔ گلوبلائزیشن کی بنیاد مغربی ممالک کی سائنسی ترقی ہے۔ اسی لئے گلوبلائزیشن کی اقدار مغربی اقدار کے ذیر اثر ہی ہیں۔ گلوبلائزیشن کی ترقی نے دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور ابلاغ کی ترقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے اتنے قریب کر دیا ہے کہ امریکہ میں بیٹھا شخص پاکستان میں کسی بھی شخص س ایسے بات کر سکتا ہے۔ جیسے دونوں ایک دوسرے کے سامنے موجود ہوں۔۔ اسی طرح دنیا کے ایک کونے میں رونما ہونے والا واقعہ اب ڈش ،ٹی وی ، انٹرنیٹ ، موبائل وغیرہ کی بدولت سیکنڈز میں دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے انسان کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ معلومات کی ترسیل اور ذرائع ابلاغ کی ترقی نے جہاں اکیسویں صدی کے انسان کو زیادہ با خبر کر دیا ہے وہیں آج کا انسان ذہنی پراگندگی یا کنفیوژن کا بھی شکار ہے۔ اس گلوبلائزڈ دنیا میں روایتی ریاست کا تصور کمزور سے کمزورتر ہوتا جا رہا ہے۔ کئی ایسے شعبے، جن پر پہلے ریاست کا مکمل کنٹرول ہوتا تھا؛ وہ اب اس کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ایسا ہی اہم شعبہ انفارمیشن یا معلومات پر کنٹرول ہے جو انٹرنیٹ ، ڈش ، ریڈیو اور کیبل کی وجہ سے ریاست کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ ایسے حالات میں جہاں بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا اپنے ہدف کے خلاف زمین ہموار کر رہا ہوتا ہے، وہیں ملک میں موجود میڈیا بھی اپنے کاروباری مقاصد کے حصول کے لئے بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا کا آلہ کار بن جاتا ہے، اور مزید کنفیوژن اور اِنتشار کا باعث بنتا ہے۔

گلوبلائزیشن نے ریاست کے بنیادی تصور کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہاں نہ تو ریاست کی کوئی اہمیت ہے نہ قوم کی۔گلوبلائزیشن ہمیشہ ریاستوں کی پانچ چیزوں پر اثر انداز ہوتی آ رہی ہے:- اول: معیشت؛ دوم: ثقافت یا کلچر؛ سوم: سیاست؛ چہارم: ماحول؛ اور پنجم: فوج۔

گلوبلائزیشن نے ریاستوں کے ان پانچ عناصر کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔گلوبلائزیشن نے ریاست کی معیشت پر اثرانداز ہو کر نیو لبرل ازم کے ذریعے سرمایہ داروں کو مضبوط کیا۔ نتیجتاً ریاستوں کے اندر لڑائیاں شروع ہوئیں۔ ہر ریاست کو ورلڈ بینک کا رکن بنایا گیا۔ طاقت ور ممالک پر مشتمل نیٹو کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اگر کسی ملک میں کوئی مسئلہ ہو تو دوسرے ممالک اس میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں گلوبلائزیشن کا کردار بڑا اہم ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ‘‘تاریخ اور نیشنل ازم’’ میں لکھتے ہیں کہ ’’گلوبلائزیشن دنیا میں ایک زبان اور ایک ہی کلچرکو عام کرنا چاہتی ہے۔ وہ ریاستوں کی خودمختاری کو ختم کر رہی ہے۔گلوبلائزیشن میں ٹیکنالوجی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقامی بازاروں اور ریاست کے قانون کو نقصان پہنچایا ہے، انہیں کمزور کیا ہے۔‘‘

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے انسانی زندگی کا سب سے اہم جز اس کا اپنا تشخص ہے۔ کسی بھی انسان کی شناخت ہی اسے دنیا میں مقام دلاتی ہے۔ جب کہ گلوبلائزڈ تشخص اپنی دھرتی سے ہمارے تعلق کو کمزور کر رہا ہے۔ جس کا فائدہ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ دار اور اس کے سرمائے سے معرض وجود میں آنے والی حکومتوں کو پہنچتا ہے۔

ایسی صورتحال میں اپنے اقتدار اعلیٰ اور اپنی نظریاتی اور سرحدی حدود کے تحفظ کی ذمہ داری حکومتی ذمہ داران اور اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ملکی میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کہ وہ عام عوام کو اس گلوبلائزیشن کے ثمرات اور نقصانات دونوں سے آگاہ کرے ۔اگر ملکی میڈیا دیانتداری سے اپنے فرائض بجا لائے تو قوم کو مقصدیت کی راہ پر لاتا ہے تاکہ اس کی تمام توانائیاں ملک و قوم کی ترقی اور سالمیت پر فوکسڈ رہیں؛ لیکن اگر میڈیا کمرشلائزیشن کا شکار ہو جائے؛ اور قومی مفاد پر ذاتی اور کمرشل مفاد کو ترجیع دینے لگے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔