انسان کی حقیقت

ایک دن ہم سب رات کا کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ والد صاحب نے ہم سب سے ایک سوال پوچھا۔ کہنے لگے کہ: ’’کیا اللہ اپنے جیسا ایک اور اللہ بنا سکتا ہے؟‘‘ اس سوال نے ہم سب کو چونکا دیا۔ مگر اس کا جواب اتنا بھی مشکل نہ تھا۔ ہمارے بڑے بھائی نے جواب دیا کہ کیوں نہیں بنا سکتا؟ ضرور بنا سکتا ہے، اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے مگر وہ ایسا کرے گا کیوں؟ یہ تو اس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ میں بھی کہنے لگی کہ بالکل اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے۔ والد صاحب نے فرمایا کہ ذرا پھر سے سوچو اور بتاؤ۔ پھر اچانک دماغ میں جو آیا تو میں نے کہا کہ: ’’وہ سب کچھ کرسکتا کیوں کہ کچھ بھی اس کے قبضہِ قدرت سے باہر نہیں، لیکن بالآخر ہوگا تو وہ اللہ کی مخلوق نہ۔ اور مخلوق کبھی خالق کے برابر نہیں ہوسکتی۔ اس سوال اور بحث کے بعد بہت سی باتیں ذہن میں ابھریں۔ اوران پر غور و فکر کرنے کا مجھے موقع ملا۔

انسان جو صرف خاک ہے، ہوا ہے، پانی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی تو نہیں ہے انسان۔ اگر اس میں اللہ نے اپنی روح نہ پھونکی ہوتی تو انسان کی اوقات ہی کیا تھی۔ اللہ نے اسے روح کے ذریعے پروان چڑھایا تو ہی انسان، انسان کہلانے کا مستحق ہوا۔ اور اسی کی نسبت انسان میں بہت سی صفات تجلّی ِخدا نما ہیں۔ مثلا: معاف کرنا، رحمدلی سے پیش آنا، محبت کرنا، مدد کرنا اور کئی ایک صفات۔ مگر یہ سب تو ایک فی صد بھی نہیں۔ اس کے باوجود انسان میں غرور و تکبر کا بیج آخر کہاں سے اُگ جاتا ہے۔ وہ کیوں یہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ عقلِ کل ہے، وہ سب کچھ کرسکتا ہے، وہ جو کچھ بھی ہے بس اپنی ہی وجہ سے ہے، اس کے پاس جو کچھ بھی ہے تو وہ اس کے اپنے کارناموں کی بدولت ہے۔ کیا وہ نہیں دیکھتا کہ سورج کس طرح اپنے مقرر کردہ وقت پر طلوع و غروب ہوتا ہے، یا چاند کس طرح رات کی تاریکی پر پردہ ڈالے ہوئے ہے؟ یا یہ آسمان کس طرح بغیر کسی کیل کے کتنی طوالت سے قائم و دائم ہے؟ یا یہ زمین ہے، اور اس میں بڑے بڑے پہاڑ میخوں کی مانند گڑے ہیں تاکہ زمین کا توازن برقرار رہ سکے؟ اور کس طرح آسمان سے پانی برستا ہے تو ہی انسان اپنا پیٹ بھرنے کے قابل ہے؟ اور کیسا کیسا سبزہ کلیوں سے پھوٹتا ہے؟ کس طرح موسم بدلتے ہیں؟ مگر انسان پھر بھی انسان ہے۔ وہ خود کو بہت بڑا سمجھتا ہے۔ حالاں کہ یہ زمین بے شمار گنا بڑی ہے۔ اور اس سے بھی بڑا سورج ہے۔ اور سورج سے بھی بڑے بڑے سیارے اس کائنات میں اپنے گردش وایام میں مصروفِ کار ہیں۔ گویا انسان تو اس دنیا میں ایک نقطے کے برابر بھی نہیں۔ اگر روح نہ ہوتی تو وہ تو خاک ہی تھا۔ اور اس کی یہ روح اگر ابھی قبض کرلی جائے تو پھر وہ خود کو اپنے تمام تر غرور کے ساتھ کہاں کھڑا پاتا ہے؟ اسی لیے اللہ قرآن میں کہتا ہے: ’’ہے کوئی جو غور و فکر کرے؟‘‘۔

انسان کو اللہ نے جو صلاحیتیں دیں، انہی کی بدولت اسے تمام مخلوقات پر برتری حاصل ہے۔ جن میں سب سے اہم اس کا دماغ ہے۔ انسان اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے کیا کیا کارنامے سرانجام نہیں دے سکتا مگر یاد رہے کہ علم سارے کا سارا سکھایا ہوا اللہ ہی کا ہے۔ انسان نے اس دنیا میں بہت ترقی کی اور اس کی یہ ترقی آخر تک جاری و ساری رہے گی۔ انسان نے ٹیکنالوجی میں بھر پور مہارت حاصل کی اور ٹیکنالوجی کی اس دنیا کی مکمل بساط ہے Artificial Intelligence۔ جس کا مقصد یہی ہے کہ انسان سے بہتر ایسی مشین تیار کی جائے جو ہر وہ کام کرے جو انسان کرتا ہے۔ اور یہ زبردست انقلاب 1950 کی دہائی میں سامنے آیا۔ جس کے حصول کے لیے اسی لمحے سے کاوشیں جاری ہیں۔ ٹیکنالوجی بہت آگے نکل چکی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر انسان کو پھر بھی تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ جبکہ 1960 میں سائنس دان یہ کہہ چکے تھے کہ ہم اگلے 20 سال میں ایسی مشین ایجاد کرلیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ عرصہ دراز ہوا ،روبوٹس بھی بنائے گئے۔ اور ان میں وہ صلاحتیں بھی پروگرام کی گئیں جو انسان میں ہیں۔ مگر آج بھی انسان جیسا کچھ نہیں آسکا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انسان سے بہتر کوئی مخلوق خود انسان بنا سکتا ہے؟ جبکہ انسان کو تو اللہ نے بنایا ہے اور یقینا، انسان سے بہتر مخلوق بھی تو اللہ ہی بنا سکتا ہے۔ مگر یہ بات ہم انسانوں کی عقل میں نہیں آتی۔ جس طرح اللہ نے انسان کو بنایا اور اس کے اندر اپنی صفات کی تجلیوں کو روشن کیا لیکن انسان کبھی بھی خدا سے بہترنہیں ہوسکتا، بلکہ بہتر ہونا تو بہت دور کی اور ناممکن بات ہے۔ بالکل اسی طرح جب انسان کوئی شے بناتا ہے تو اس میں اپنی جیسی صلاحیتیں کسی حد تک وہ بے شک پروگرام کردے مگر وہ تخلیق کردہ چیز خود انسان سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ بالآخر ہوگی تو وہ انسان کی مخلوق ہی نہ؟ اب انسان چاہے کتنی بھی کوششیں کیوں نہ کرلے، اسی حد تک ہاتھ پیر مارسکتا جتنا کہ اللہ نے اسے اختیار دیا ہے، اور وہ اختیار بھی اگر اللہ اس سے چھین لے، تو انسان روٹی توڑکر کھالینے کے قابل بھی نہیں!