دماغی صحت کی آگاہی کا عالمی دن۔۔۔اضطراب اور افسردگی

ورلڈ مینٹل ہیلتھ اوئرنس ڈے..اینزائیٹی اینڈ ڈپریشن

ٹیکنالوجی  کی اس جدید دور میں جہاں انگلیوں  کی پوروں  پہ ساری دنیا سمائی  ہوئی ہے۔۔رفتار اور انو ویشن اس جدید دور  کا طرہ  امتیاز ہے۔۔۔آپشنز  کی بہتات نے انسان کی زندگی کو اس قدر سہل  بنادیا ہے جو شاید پہلے کبھی نا تھی۔۔۔انسان  اپنی زندگی،اس دنیا اور اس دنیا سے نکل کر کہکشاؤں کے راز تک کھوجنے  میں کامیاب ہوا۔۔۔انسان خود اپنی ذات کو موجودہ دور میں پاکر ایک خوش نصیب مخلوق  محسوس کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ دوسرا پہلو یہ ہے اس جدیدیت  کا کہ انسانی ازہان شدید انتشار کا شکار ہیں۔۔۔جسمانی صحت میں جہاں سائنس اور ریسرچ آگے بڑھتی جارہی وہیں آج ساری دنیا یہ ماننے پہ مجبور ہے کہ ضرورت سے زیادہ آگہی۔۔جسے ہم نالج  ہب کہیں۔۔ورلڈ آف ڈسٹریکٹیشن جس میں ایک لمحے میں کئی منظر  بدل رہے ہیں انسانی دماغ کی انتشار کی آخری حد پہ پہنچ چکی ہے۔۔انسانوں کی مینٹل ہیلتھ اوئرنس کے پیش نظر ورلڈ فیڈریشن  آف مینٹل ہیلتھ کے زیر اہتمام 10 اکتوبر 1992کو منایا گیا۔۔۔۔

حالیہ کووڈ 19 کے منظر نامے میں دنیا بھر سے لاکھوں لوگ ایموشنل اور مینٹل کرائسس کا شکار ہوئے اور ہو رہے ہیں۔۔۔جہاں ملک مالی اور معاشی بحران کا شکار ہوئے وہی اقوام عالم کے لاکھوں لوگوں نے ڈر خوف۔۔سوشل ڈسٹنسنگ اور آئیسولیشن کی زد میں آکر مینٹل النس  کی زد میں آئے۔۔

WHO کی 2001 میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں450 ملین  افراد  ذہنی امراض  کا شکار ہیں جو اس وقت دنیا میں صحت کی صورتحال  اور ڈس ایبیلیٹی میں شامل ہوتے ہیں  اسی طرح۔۔۔دنیا میں ہر 4 میں سے 1 فرد  اپنی زندگی میں  کبھی نا کبھی ضرور کسی ذہنی مرض کا شکار  ہوتا ہے۔۔WHOکے 2008کے اعدادوشمار کے مطابق ہر 40سیکندز  میں ایک آدمی خودکشی کا مرتکب ہوتا ہے جو سالانہ آٹھ لاکھ تک پہنچ جاتے ہیں جو کہ کسی جنگ سے مرنے والوں کی تعداد سے یا کسی حادثے سے شکار ہونے والوں کی تعداد  سے کہیں  زیادہ  ہیں ۔۔ایک سروے کے مطابق خودکشی سے ہونے والی اموات کا رجحان15 سے 29 سال کی عمر  میں پایا جاتا ہے۔۔۔خاص کر  غریب ممالک میں۔۔

ورلڈ اکنامک فورم2018 کے مطابق2010سے2030 میں تقریبا 16 ٹریلین  کا نقصان صرف افراد کا ذہنی امراض  سے متاثر ہونے کے سبب ہوگا۔۔۔یہ تمام صحت کے عالمی  اداروں کا وہ منظر نامہ ہے جس کے تحت انہوں نے مینٹل ہیلتھ اوئرنیس کو ترجیح میں رکھتے ہوئے ایکشن پلان پہ عمل کر رہیں  ہیں  جسے وہ اپنے دستاویزات  میں “greater investment “کا نام دیتے ہیں  ۔۔

کیونکہ ذہنی و جسمانی طور پہ ہی بحیثیت  قوم اپنے مقاصد پورے کر سکتی ہے۔۔

اس صمن میں دو بڑے ذہنی عارضوں  کا ذکر کرنا چاھوں گی اینزایٹی اور ڈپریشن   جو دور جدید  کی ذہنی عارضوں  کی صف میں سرفہرست ہیں۔۔اینزائیٹی دنیا میں  ذہنی امراض میں سرفہرست  مانی جانے والی بیماری ہے اورWHOکے مطابق ہر 13 میں  سے 1 فرد اس کا شکار ہے۔۔دو دہائیوں  پہلے اس مرض  سے آگہی نہیں  تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ کسی کو ذہنی عارضہ لاحق  ہو تو چھپایا جاتا اور ذہنی امراض کے معالج کے پاس جانا معیوب تصور کیا جاتا تو غلط نا ہوگا۔۔آج سائنس اور طب کے شعبے میں  ترقی کی بدولت ہر عوام و خواص کو آگاہی ہے لیکن اگر ان کے محرکات  پہ بات کریں  تو سب سے بڑا  محرک سوشلائز  ہونے کے باوجود کمیونیکیشن گیپ ہے۔۔اس لئے مشاہدہ یہ ہے کہ بہترین تربیت یافتہ متوازن شخصیت رکھنے اشخاص، تمام تر وسائل اور اسباب ہونے کے باوجود ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد اینزائیٹی اور ڈیپریشن  میں گھرے  نظر آتے ہیں۔۔۔

علامات پہ بات کریں تو اینزائیٹی ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری باتوں۔۔رویوں ۔۔واقعات پہ پریشان ہونا۔۔کسی بھی واقعے کسی بھی حوالے سے over thinking کا شکار ہونا۔۔کسی خاص منظر یا معاملے کا سامنہ کرنے سے کترانا۔۔۔یہ عموما  generalized  anxiety disorder GADکہلاتا ہے جس کی شدت کم سے کم سے بھی ہوتی ہے اور ذیادہ سے ذیادہ کسی بھی واقعے کے نتیجے میں موت کا خوف کی صورت میں  بھی ظاہر ہوتی ہے۔۔۔۔یہی مرض بعض لوگوں میں social anxiety disorder SAD کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں انسان لوگوں  نئے لوگوں اور حالات کا سامنہ کرنے سے گریز کرتا ہے۔۔

جسمانی اثرات میں فوکس اور کنسنٹریشن کی کمی۔۔بہت ذیادہ یا بہت کم سونا۔۔چکر۔متلی۔۔سانس پھولنا۔۔جسمانی تھکاوٹ ۔۔بلڈپریشر۔نبض کا تیز ہونا شامل ہے۔اس کے برعکس  ڈپریشن کی علامات میں حالات ،واقعات،مستقبل سے مایوسی کی صورت نظر آتی ہے۔۔اپنی آپ کو غیر اہم اور ناکامیوں محسو س  کرنا اور یہ  مایوسی  خودکشی  کی شدید  سوچ بھی اختیار کر سکتی ہے۔۔یہ کیفیت دن کے ذیادہ تر حصے کئی دن ہفتوں اور مہینوں پہ بھی محیط ہوتی ہے۔

جسمانی طور پر جسمانی طاقت میں کمی محسوس  ہونا۔۔جسم میں درد محسوس ہونا۔۔فوکس اور کنسٹرکشن کے ساتھ ساتھ یادداشت بھی متاثر ہونا۔۔بھوک کا بہت کم ہو جا یا بہت بڑھ جانا۔۔بہت ہلکا اور کم بولنا۔۔نیند کا کم ہو جانا یا ضرورت سے ذیادہ سونا۔اسے major depressive disorder کہا جاتا  ہے ۔۔bipolar  disorder اور mood disordersاس کی مختلف اشکال ہیں۔۔۔ان دونوں امراض کی اصولی وجہ ہمارے دماغ میں  موجود نیورو ٹرانسمیٹر ز سیروٹونن۔ ڈوپامن اور ایپی نیفرین کی کمی ہوتی ہے۔۔کچھ عرصہ  ان علامات  کے ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ازحد ضرورت ہوتی ہے جس سے ڈاکٹر  آپ کی سوالات کے ذریعے مینٹل اسیسمنٹ  کرتے ہیں  جس کے بعد ادویات میں اینٹی ڈپریسنتس اور اینزیولائیٹک  ادویات شامل ہوتی ہیں ۔۔ساتھ ساتھ psychotherapy کے زریعے  جس میں CBT  اورtalk therapy  شامل ہے کے زریعے  واپس  بہتری کا سفر کی طرف مدد کی جاتی ہے۔۔۔اس میں۔۔۔حالیہ متعارف ہونے والی self meditation کے طریقے بھی متعارف  ہورہے ہیں  جو کافی حد تک مثبت نتائج  دکھا  رہے ہیں۔۔یہاں علامت سے علاج تک مختصر بیان کے بعد جس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاھوں  گی کہ ہم خود یا ہمارے پیارے اس مرض کا شکار ہوں  تو ہم اس denialمیں  رہتے ہیں  کہ ہمیں  یہ عارضہ نہیں  ہو سکتا ۔۔۔اس denialرویے کو جتنا جلدی acceptanceمیں بدل دیا جائے اتنا اچھا ہےکیونکہ جیسے انسانی عقل اس بات کی قائل ہوگئی ہے کہ environmental factorsبدلنے  کے ساتھ ساتھ بیماریوں  میں  اضافہ ہو رہا ہے بلکل اسی طرح یہ دور جو اسپیڈ اور ڈسٹریکشن سے مشروط ہے تو لامحالہ یہ کئی ایک ذہنی  عارضوں  کا سبب  ہے ۔۔جس کا شکار فی ذمانہ  مضبوط سے مظبوط اعصاب رکھنے والا انسان  بھی ہو سکتا  ہے۔۔ان سب کے ساتھ ساتھ جہاں  رب سے تعلق انسان کو اس کی ذندگی میں امید اور اطمنان قلب لاتا  ہے وہیں صحبت صالحہ  کئی ایک ذہنی عارضوں کا حل ہے جس کے زریعے وے آوٹ  اور کمیونیکیشن گیپ  ختم کیا جا سکتا  ہے ۔۔کیونکہ  اکثر دلوں کو وہ تسلی اور  تشفی کی ضرورت ہوتی ہے جسے اللہ نے سورہ العصر  میں حق کی تلقین  اور صبر  کی تاکید  فرمایا ہے۔۔۔کیونکہ اکثر ذہنی عارضوں کی کھوج کی جائے تو پس پردہ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آج کا انسان اپنے آپ کو بھرے  ہجوم میں بھی ائیسولیٹ محسوس  کرتا ہے۔۔اسے اس تیز رفتار دور میں وہ خیر خواہ حلقہ احباب میسر نہیں  آتا خو اس کی شخصیت کے آئینہ کی طرح اس کے خدوخال ظاہر کرے۔۔۔