درس گاہ کا مالک

مس ضوفی …میری کل رخصت ہے۔ آپ کو بتایا تھا نا میرا پرچہ ہے۔مس تحریم نے مس ضوفشاں کو یاد کروایا۔اچھا … چلیں کوئی بات نہیں۔ کل کے انتظامی معاملات آپ نے طے کر رکھے ہونگے میں جماعت توجہ سے دیکھ لوں گی۔مس ضوفشاں نے جواب دیا۔

نہیں محترمہ… کل کے انتظامی معاملات بھی آپ ہی دیکھیں گی، کیونکہ کل سر زبیر حمدانی صاحب اِیک اچانک رسمی دورے پر تشریف لارہے ہیں۔اور تمام انتظامی معاملات آپ نے دیکھنے ہیں اور جماعت کی تعلیمی پیش رفت پر رپورٹ بھی آپ ہی پیش کریں گی، مس تحریم نے وضاحت پیش کی۔

استغفر اللہ …!یہ کہاں لاکر پھنسا دیا آپ نے مس … مس ضوفشاں نے یک لخت کہا۔ مس میری تو رخصت پہلے سے منظور شدہ ہے، اب آپ دیکھ لیجئے گا۔مس تحریم نے تاویل پیش کی۔مس آپ کو پتا ہے زبیر صاحب کا ۔۔ اور ان کا رویہ۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔ اب میں کل کی چھٹی کی درخواست بھی نہیں دے سکتی، مس ضوفشاں نے تشویش سے کہا۔

چلیے … اللہ مالک ہے۔ پریشان نہ ہوں … میرا ایم اے کا سالانہ پرچہ نہ ہوتا تو میں کبھی آپ کو اکیلا نہ چھوڑتی، مس تحریم نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔ اچھا اب چلو ، میں تیار ہوں۔۔ چوکیدار بس ہمارا انتظار کررہا ہے۔ چھٹی کے بعد دونوں گھر جانے کو نکل پڑیں، مس ضوفشاں اور تحریم ایک چھوٹے سے پرائیویٹ اسکول میں استانیاں تھیں اور انتظامی معاملات بھی انہیں کے سپرد تھے، پسماندہ سے علاقے میں تعلیم کا چراغ روشن رکھنے کیلئے دونوں دیہاتی ماحول میں جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھیں۔

زبیر حمدانی صاحب اس اسکول کے مالک تھے۔ اک سرمایا دار گھرانے سے تعلق ہونے کی بناء پر خود ایک نامور تاجر تھے اور ان کے لیے یہ اسکول بھی فیس کی مد میں آمدنی کا اِک ذریعہ تھا۔ وہ جب بھی اسکول کے دورے پر آتے تھے، عموماً غیر معمولی خوش پوش ہوکر آیا کرتے تھے، دفتر میں بیٹھے استانیوں کے ہمراہ چہک چہک کر گفتگو کرتے اور اپنے رنگین مزاج کو خوب تسکین دینے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اب وہ اِیک بار پھر سے اسکول کے رسمی دورے پر تشریف لارہے تھے۔

السلام علیکم سر! مس ضوفشاں نے زبیر حمدانی صاحب کا اسکول کے دروازے سے استقبال کیا۔ وعلیکم السلام! مس کیسی ہیں آپ؟ زبیر صاحب نے چہکتے ہوئے جواب دیا اور اندر داخل ہوئے۔ الحمدللہ سر ۔۔ آپ کہیے سفر کیسا رہا ؟ مس ضوفشاں نے رسما پوچھا۔ بس جی کیا بتائیں ؟ آپ سے ملنے کو کھنچے چلے آتے ہیں! اسکول کی عمارت میں موجود آپ کا خیال وقت کا پتا ہی نہیں چلنے دیتا، زبیر صاحب قدرے شوخی سے بولے۔ آپ بیٹھیے ۔۔

میں آپ کے لیے چائے بنواتی ہوں، مس ضوفشاں نے بات پلٹتے ہوئے کہا۔ ارے آپ صرف اپنے ہاتھوں سے پانی پلایئے، چائے بھی پی لیں گے، زبیر صاحب دفتر کے دروازے میں ٹھہرتے ہوئے اسی شوخی سے بولے۔

سر دراصل جماعت میں بچے بیٹھے ہیں میں ان کا سبق دیکھ لوں، اور دوسرے جماعت کے بچوں کو بھی سبق دے آؤں۔ آپ بیٹھئے میں چوکیدار کو آمدن واخراجات کا بھی کھاتا دے کر بھیجتی ہوں، آپ وہ دیکھ لیجئے۔ مس ضوفشاں نے خالصتاً دفتری لہجے میں معمولات بتائے اور جان چھڑانا چاہی۔

ارے مس وہ بھی دیکھے جائیں گے، دو گھڑی آپ کو تو دیکھ لیں، زبیر صاحب شوخی چھوڑ کر للچائے لہجے میں کہنے لگے۔

مس ضوفشاں کو آج اکیلے پاکر زبیر صاحب اپنے اوپر چڑھا انسانی خول اور ملمع کاری کا ہر رنگ اُتار پھینکنے کے در پر تھے۔

سر آپ اسکول کے دورے پر آئے ہیں، آپ وہی کیجئے تو زیادہ بہتر ہے، مس ضوفشاں سخت لہجے میں کہنے لگیں، آپ بیٹھیے میں ٹھنڈا پانی اور چائے بھیجتی ہوں، مس ضوفشاں غصے سے لرزتی کمرۂ جماعت کی جانب بڑھتی چلی گئیں۔

زبیر صاحب دفتر کے دروازے میں کھڑے مس ضوفشاں کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔

صاحب جی …!ابھی آجائیں گی واپس … آپ بیٹھئے۔ چوکیدار تسنیم نے دانت نکالتے ہوئے زبیر صاحب کو کہا۔ زبیر حمدانی صاحب بڑی نخوت سے کرسی پر جا بیٹھے اور سر پیچھے کی جانب پھینکے اگلا اقدام سوچنے لگے۔ صاحب یہ رجسٹر رکھے ہیں اگر حساب دوبارہ دیکھنا ہو تو ، چوکیدار تسنیم نے ٹیبل پر رجسٹر رکھتے ہوئے کہا۔ ارے تسنیم!رہنے دے۔ تو نے خط بھیجا تھا تو میں نے بینک سے بھی دیکھ لیا تھا، زبیر صاحب نے تسنیم کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

ویسے آج بھی کھاتہ ہی دیکھنا ہوتا تو یہاں شہر سے اتنی دور نہ آتا، جا۔۔ جاکر مس کو بھیج۔۔۔

اور ذرا ساری جماعتوں کے بچوں پر نظر رکھیو، زبیر صاحب نے ذہن میں منظر بناتے ہوئے تسنیم کو ہدایات دیں۔ جی صاحب جی، تسنیم نے دانت نکالے اور اِک لحظہ رُک کر باہر کو قدم بڑھانے لگا۔

اور ہاں بات سن …!زبیر صاحب نے اسے آواز دی۔ تسنیم دروازے کے پاس رُک کر مڑا۔ جی صاحب ۔۔۔یہ لے، رکھ لے، زبیر صاحب کے ہاتھ میں چند کڑکتے نیلے نوٹ تھے۔ مہربانی صاحب ،بہت شکریہ، اللہ بہت دے صاحب ، بڑی مہربانی ، تسنیم نے زبیر صاحب کے ہاتھ سے جھپٹ کر نوٹ پکڑتے ہوئے خوشامدی دعاؤں کی گردان شروع کی۔

اچھا اچھا … جا شاباش، زبیر صاحب نے بے زاری سے کہا۔ تسنیم دوڑتا ہوا باہر کو لپکا۔ کچھ دیر بعد مس ضوفشاں دفتر میں داخل ہوئیں، میز پر صرف پانی دیکھ کر مڑنے لگیں۔ ارے مس جی ، آکر واپس پلٹ رہی ہیں۔ زبیر صاحب نے فوراً سے مس ضوفشاں کو روکا۔ وہ سر!، تسنیم کو چائے کا کہا تھا۔ اسے دوبارہ کہہ دوں۔ مس ضوفشاں نے توجیہہ پیش کی۔ ارے رکیے تو ، زبیر صاحب کرسی سے اُٹھ کر مس ضوفشاں کی جانب بڑھے، ارے آیئے، بیٹھئے تو ۔ زبیر صاحب نے مس ضوفشاں کو بیٹھنے کا کہتے ہوئے ، ضوفشاں کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچنا چاہا۔

سر چھوڑیئے۔ کیا کررہے ہیں آپ۔۔۔ ضوفشاں نے خوف سے پھٹی آواز سے کہا۔ارے میڈم، یہاں بیٹھئے تو ، زبیر صاحب نے مس ضوفشاں کو دفتر میں دیوار سے لگے صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا۔

بتاتے ہیں کیا کرنے لگے ہیں، زبیر صاحب مس ضوفشاں کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہوئے بولے۔ سر آپ ایسے کیوں بیٹھے ہیں، پلیز

مس ضوفشاں کی گھٹی ہوئی آواز رندھ گئی۔ ارے مس ، کیا ہوا؟ ارے ہم سے کیسا ڈرنا اور کیا غلط کیا ہم نے۔ زبیر صاحب ضوفشاں کے خوفزدہ چہرے پر بدلتے رنگوں سے مخطوظ ہوتے ہوئے بولے۔ اور آپ کے قدردان ہیں! سارے کا سارا اسکول سنبھالتی ہیں، ہمیں بھی سنبھال لیجئے، زبیر صاحب قدرے بھونڈے انداز میں رومان جھاڑنے لگے۔

سر پلیز مجھے جانے دیجیے۔۔۔ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں، مس ضوفشاں کے آنسو گرنے لگے۔ ارے یہ ایسی لڑکی کا کیا مطلب؟ یعنی ہم آپ کو ایرے غیرے لگتے ہیں ؟، زبیر صاحب کے ہاتھ مس ضوفشاں کے آنسو صاف کرنے کے بہانے چہرے کا احاطہ کرنے لگے۔

سر میرے بابا غریب اور معذور ضرور ہیں لیکن میں ۔۔۔۔ ضوفشاں بولتے بولتے یک لخت خاموش ہوگئی، زبیر صاحب کے ہاتھ حد سے گزرنے لگے۔ ضوفشاں کی زبان گنگ اور آنکھوں کی پتلیاں پھٹ گئیں۔ زبیر صاحب کے انسانی وجود پر حیوانی جبلت کا غلبہ بڑھنے لگا۔ ضوفشاں کے مزاحمت کرتے ہاتھ اکڑنے لگے، زبیر صاحب نے تائید سمجھتے ہوئے ۔

ضوفشاں کو صوفے پر لٹانے کو دھکا دیا، ضوفشاں صوفے پر گرتے ہوئے لڑھک کر منہ کے بل فرش پر جاگری۔ زبیر صاحب فوراً سے ضوفشاں کو اُٹھانے لپکے۔ ضوفشاں کو سیدھا کرتے ہیں زبیر صاحب کے اپنے رنگ اُڑ گئے۔ ضوفشاں کی پتھرائی آنکھوں میں زندگی کی رمق ختم ہوچکی تھی۔