اللہ سے باتیں کریں

پرسنل ڈویلمنٹ [شخصی نمو] اور سیلف ہیلپ [اپنی مدد آپ] کی بلا مبالغہ سینکڑوں کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ ٹونی رابنس، دیپک چوپڑا، رابن  شرما، ایکارٹ ٹولے، رچرڈ گارلسن، ڈیوڈ ایلن، بار براشیر، جان کابٹ، سونجا لیبورسکی، ڈیوڈ برنس اور سوزن جیفرز آپ گنتے چلے جائیں۔ ایک سے بڑا ایک ٹرینر، لائیف کوچ اور زندگی بدل دینے والا گرو آپ کو مل جائے گا۔ اس پر ارب پتی لوگوں کے اقوال و فرمودات اور کامیاب انسانوں کی زندگی کی مثالیں الگ۔ ہر صحیح کام پر مثال اور ہر غلط کام کی دلیل۔

آہا اور واہ واہ کے ان عظیم لمحات میں پرورش پاتی منافقت آخرکار طالبعلموں کے مزاج میں بھی سرایت کر جاتی ہے۔ پہلے آپ بیلنس لائف اور وژن کا رونا روتے ہیں اور پھر ایلون مسک اور جیف بےزوز کی مثالیں پیش کرتے ہیں جن کی زندگیوں میں نہ تو بیلنس ہے اور نہ ہی پیسہ کمانے کے علاوہ کوئی اور وژن۔ “ارب پتی بننا” تو دنیا کے آٹھ ارب لوگوں کا وژن ہے سوائے چند افراد کے، اور سب کسی نہ کسی ارب پتی کو فالو ہی کر رہے ہیں۔

لبرل مزاج لوگ پروفیشنل ٹرینرز کے پاس جاکر سکون پاتے ہیں تو دینی مزاج لوگ کسی نہ کسی نام نہاد مولوی یا شیخ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ایک کا زور صرف “ذاتی ڈسپلن اور ساری طاقتیں انسان کے بس میں ہوتی ہیں” کی گردان پر ہوتا ہے، تو دوسرے کا زور نیکی بھری، گناہوں سے یکسر پاک زندگی پر۔ ایک مسلسل ناکامی کی وجہ ڈسپلن کی کمی کو بتاتا ہے اور وہ وہ گُر، ٹریننگز اور کتابیں تجویز کرتا ہے کہ ان میں سے آدھی بھی خود پڑھ لی ہوتیں تو اس شعبے سے توبہ تائب کر چکا ہوتا، تو دوسروں کے نزدیک جب تک گناہ نہ چھوٹ جائیں تب تک کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے۔

ایسے میں ایک آدمی کدھر جائے جو نہ تو ہزاروں ڈالرز کی ٹریننگ افورڈ کر سکتا ہے اور نہ ہی گناہوں سے یکسر پاک ہو سکتا ہے۔ کوئیتو طریقہ ہو کہ بہتری کی سبیل بنے، کوئی تو ہو جو دکھوں کا مداوا کرے، کوئی تو جائے پناہ ہو، کہیں تو سہارا ملے، کہیں تو بات تذلیل سے آگے بڑھے، کوئی تو اس ‘قابل’ سمجھے کہ ہماری بات بھی سن لے۔

تھکے ہارے ہوئے، اپنے آپ سے شرمندہ اور اپنے ہی نفس کے ہاتھوں شکست کھائے ہوئے مجھ جیسے دل جلوں کے لیے یہ مضمون ہے۔

آیئے، پرسنل ڈویلپمنٹ کا ایک ایسا گُر سیکھتے ہیں کہ جس میں سے “پرسن” ہی مائنس ہو جائے، شخصی نمو کا وہ طریقہ جانتے ہیں جس میں سے “شخص” غائب ہے، سیلف ہیلپ [خود سازی] میں سے سیلف/خود کو مِنہا کر کے دیکھتے ہیں۔ خود سازی دراصل خود سوزی کا نام ہے، جب تک اپنے نفس کو نہ جلائیں شخصیت کی تعمیر شروع ہی نہیں ہوتی۔

آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟ ترقی کرنا چاہتے ہیں؟ ملک و معیشت کی تعمیر میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں؟ عالم اسلام کی سربلندی کے خواہاں ہیں؟ یا اپنی ذات کی تعمیر پر توجہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک چھوٹا سا کام کریں

اللہ سے باتیں کریں

دیکھیں، جب رات کو سونے کے لئے جائیں تو لیٹتے وقت جب چادر اوڑھ لیں تو اللہ سے دن بھر کی کارگزاری شئیر کردیں۔ نہ دعا کو ہاتھ اٹھانے کی ضرورت ہے، نہ وضو کی، بس باتیں کریں جیسے فون پر کی جاتی ہیں یا کسی دوست سے۔ سب کچھ کہہ دیں، کچھ نہ رکھیں دل میں۔

اللہ سائیں، صبح اٹھا تو یہ ہو،ا پھر نماز پڑھی، آفس میں ایسے جھگڑا ہوگیا، بیوی نے یہ کہہ دیا، بچے تو سنتے کہاں ہیں۔ مولا تیرا شکر ہے کھانا بہت لذیذ تھا آج۔ اور ہاں وہ بجلی کا بل آ گیا ہے، تو غارت کرے ان بجلی والوں کو اتنا زیادہ بل۔ غریب آدمی کہاں سے دے؟ خیر تُو اس ماہ بھی مدد کر دینا، وہ بیچارے بھی کیا کریں ہر چیز ہی مہنگی ہوگئی ہے سوائے مسلمان کے۔

اچھا سُنو میرے رب، میرے وہ فلاں فلاں کام کرنے رہتے ہیں۔ فلاں فلاں نیکیوں کا ارادہ ہے وہ پوری نہیں ہوتی۔ فلاں فلاں گناہ تو جان ہی نہیں چھوڑتے، تو ہی کچھ بندوبست کر ورنہ میں تو مفت میں مارا جاؤں گا۔ یا ذالجلال والاکرام، تو بس مجھے مجھ سے بچا لے۔ اچھا خاصا تیرے پاس پہنچ جاؤں گا۔

اچھا اللہ سائيں، اب چلتا ہوں، نیند بہت آتی ہے مجھے۔ تہجد پر ملتے ہیں ان شاء اللہ۔ آج کوئی نئی دعا سکھا دینا، مجھے آتا کچھ نہیں۔ تجھے پکی والی دوستی کا وعدہ، میرا خیال رکھنا۔ تیرے سوا میری سنتا کون ہے۔

بس یہ اتنا سا کام ہے کرنے کا، کرتے رہیں، مسلسل، زندگی بھر، پھر دیکھئے قدرت کیسے ہاتھ تھامتی ہے۔

کسی سے بھی باتیں کرنے کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں، کنکشن [تعلق] اور جان پہچان۔ آپ کسی کو موبائل پر کال کریں مگر کال کنکٹ ہی نہ ہو تو باتیں کیسے کریں گے؟ تو کنکشن تو سب سے پہلے قائم ہونا چاہيے۔ اب اگر سامنے والا آپ کو جانتا ہی نہیں تو آپ کی سُنے گا کیوں؟ آپ راہ چلتے کسی کو روک کر اپنی کہانی شروع کردیں تو وہ آدمی آپ کو یہی کہے گا نا کہ بھائی پگلا گئے ہو کیا؟ مجھے کیوں سناتے ہو؟ میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں۔ جاؤ اپنا کام کرو۔خوامخواہ وقت برباد کرنے آ جاتے ہیں، میرے پاس اپنے ڈھیروں کام ہیں وغیرہ وغیرہ

اللہ سبحان وتعالی سے کنکشن قائم کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔ یہ قدرتی ہے۔ ہم ڈیزائن ہی اس کام کے لیے ہوئے ہیں۔ آپ ٹیوب لائٹ کو دیکھیں یہاں سوئچ آن ہوا وہاں یہ جل گئی۔ اس کے لیے ہزاروں بار جلنا اور بجھنا آسان کام ہے کیونکہ یہ بنی ہی اس لیے ہے۔ ہاں اگر آپ ٹیوب لائٹ سے کوئی اور کام لینا چاہیں تو اب یہ مصیبت میں پڑ جائے گی۔ اگر آپ اس کو لاٹھی بنا کربکریاں ہانکنے لگیں تو ہو گیا کام۔ اے۔سی کے لیے ٹھنڈی ہوا دینا، فریج کے لیے چیز وں کو ٹھنڈا کرنا، اور ریڈیو کے لیے آواز نشر کرنا آسان کام ہوئے۔

اللہ سائیں خود فرماتے ہیں “میں نے انسانوں اور جنوں کو کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا، سوائے اس کے کہ میری عبادت کریں.”

آپ جملے کی شان دیکھیں۔ بےشک یہ الفاظ کوئی انسان کہہ ہی نہیں سکتا۔ اللہ نے ہماری ہر ہر سوچ، ارادے اور دلیل کی نفی پہلے ہی کردی۔ بنانے کا مقصد بعد میں بتایا۔ اب ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی عبادت کا بھی کہیں، اپنے سے دُعا کرنے کا بھی کہیں، رجوع کرنے کا کہیں اور پھر اسے ہمارے لئے مشکل بھی بنا دیں؟ اللہ سے تعلق قائم کرنا قدرتی عمل  ہے۔ ہماری سرشت، ڈی این اے میں شامل ہے۔ بس پریکٹس کرتے رہا کریں۔ کوئی ٹیوب لائٹ جو سال سے نہ جلی ہو اسے بھی کسی اچھے طاقتور اسٹارٹر کی ضرورت پڑ جاتی ہے پھر وہ پھڑپھڑا کر جلنے لگتی ہے۔ انسانی دل کو بھی کسی جملے، دعا، یا مینٹر کی  ضرورت پڑ ہی جاتی ہے مگر یہ ایسا کوئی مشکل کام نہیں۔ بس لگے رہیں۔

دوسری ضروری شے پہچان ہے۔ پہچان ملتی ہے یاد سے، ذکر سے۔ اللہ کے بارے میں جانیں، قرآنِ پاک پڑھیں، حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرفودات پڑھیں، ان کی زندگی کا مطالعہ کریں، ان کے نقشے قدم پر چلیں، تو ہلکے ہلکے مالک کی عظمت کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے۔ محبت کے ليے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں، محبوب کا اچھا لگنا اور اس کے ملنے کی امید، اب کوئی اچھا ہی نہ لگے تو محبت کیونکر ہو، اور اگر ملنے کی امید نہ ہو تو انسان مایوس ہو کر کوشش چھوڑ دیتا ہے. اللہ کا ذکر یہ انسیت اور امید دونوں دیتا ہے.

آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں؟ آپ نے اکثر سُنا ہوگا کہ جو بندہ اللہ سے دور ہو گیا وہ کہیں کا نہیں رہا۔ جسے اللہ مل جائیں وہ بھی کہیں کا نہیں رہتا۔ دنیا کی ہر شے بے مزہ، ہر دیدار بے معنی ہو جاتا ہے۔ قدرت جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ایسی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں کہ بندہ ہِل کر رہ جاتا ہے، تب یہ اللہ سے باتیں کرنے والی عادت کام آتی ہے۔ ایسا اس ليے ہوتا ہے کہ محبت کا دعوی کرنے والے سارے کم ظرف جھڑ جا ئیں اور بندگی کی شاخ پر صرف وہ رہ جائیں جنہیں آگے جا کر کھلنا ہے، اور منزل کی طرف وہ چلے جو سب کچھ لگانا جانتا ہوں۔

کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعویٰ انہیں بھی ہے

جو حد اعتدال سے آگے نہ جا سکے

میں نے ایک روز اپنے دوست عبداللہ سے پوچھا کہ یار بڑا مشکل لگتا ہے اللہ تک پہنچنا۔ تو کہنے لگا کہ عبد اور اللہ میں صرف ایک پیش[ ُ] کا ہی تو فاصلہ ہے، عبدُاللہ بن جاتا ہے۔ پیش کی یہ ھُو گونج ہے جس میں صور پھونک دیا گیا ہے۔ اَنا، ہٹ دھرمی، میں، ذات کا دعویٰ، عاجزی کا غرور، اور مخدومیت کا مزاج، غیر اللہ پہ نظر،  یہ سب کچھ اس میں بھسم ہو جاتا ہے۔

کبھی رہنے نہیں دیتا سوالی غیر کے آگے

مجھے چلنا سکھانے کو سہارا چھین لیتا ہے

 

عطا کر کے مجھے شبنم، وہ بخشش کے سبھی موتی

گناہوں کا ہر اک مجھ سے نظارہ چھین لیتا ہے

 

مجھے حاجت نہیں کوئیکہ پوچھوں زائچہ اپنا

 جو دشمن ہو فلک سے وہ ستارہ چھین لیتا ہے

 

  میں اپنے رب کی رحمت کا کروں کیا تذکرہ عابی

 منافع مجھ کو دیتا ہے، خسارہ چھین لیتا ہے

بس اللہ کی ذات پر تھوڑا سا یقین رکھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے کو سچ جانیں، ان کی زبان مبارک پر بھی اعتبار کرلیں اور اللہ پاک سے ڈھیروں باتیں کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی پرسنل ڈویلپمنٹ کو کسی اور کی حاجت نہیں رہے گی۔ یاد رکھیں تربیت کی ابتداء نیستی سے ہوتی ہے۔ کچھ نہ کرنے سے شروع کریں، ان شاء اللہ سب ہو جائےگا۔

حصہ
ذیشان الحسن عثمانی ایک منجھے ہوئے قلم کار،کسک،جستجو کا سفر،فل برائٹ اورآئزن ہاور فیلوسمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ معاشرتی وسماجی، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور دیگر متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسرکے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں