کہاں ہو؟ اے ابن قاسم‎

عدالت کے باہر مجسمہ ہوتا ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے،جس کو دیکھ کر ہم جیسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انصاف اندھا ہےاور اس کے اوپر پاکستانی عدلیہ پوری اترتی ہےکیوں کہ آج تہتر سال گزرنے کے باوجود لوگوں کو ایک اعلی اور انصاف ہر مبنی عدالتی نظام میسر نہ ہوسکا-

ہمارے ملک میں جو بھی جرائم ہوتے ہیں ان کے شواہد مٹادیے جاتے ہیں ،قاتلوں اور مجرموں کی سرپرستی کی جاتی ہے جس سے انصاف کا تیاں پاچاں ایک ہو جاتا ہے اور غریب بیچارہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے-ہمارے سامنے کتنے ہی سانحات ہوگئے ایک کا بھی انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں آیا جن میں سہر فہرست سانحہ ساہیوال ھے۔

آج کل بچیوں کا اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات پھر شروع ہوگئےاگر ہمارے ملک  میں ایسے درندوں کو سر عام پھانسی کی سزادی جاتی تو آج ملک میں ایسے واقعات نہیں ہوتے لیکن ایک وزیر موصوف کہتے ہیں کہ پھانسی کی سزا انسانیت کے خلاف ہے، وزیر صاحب آپ کو ان بچیوں کا خیال نہیں آتا جن کے ساتھ زیادتی کر کےان کے ٹکرے ٹکرے کر دیے جاتے ہیں جب آپ کی انسانیت نہیں مرتی؟؟

وزیر صاحب کچھ عقل سے کام لیں روز محشر کتنے سارے جرائم کا جواب دینگے،خدارا درندہ صفت انسانوں جیسےنہ بنے-

جناب وزیراعظم صاحب اور محترم چیف جسٹس صاحب

اسلامی جمہوریہ پاکستان(جو کہ صرف کاغذ میں لکھا ہے) اور ریاست مدینہ کی ماں ،بیٹیاں اور بچیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں خدارا آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دیجیےکہی دیر نہ ہو جائے اور “حوا کی بیٹی پکار اٹھے محمد بن قاسم کہاں ہو بس آجاؤ۔”