حضوراکرم ؐ کے تاج وتخت ختم نبوت پرڈاکاڈالنے کی کوشش کرنے والے طالع آزماں میں مرزاغلام احمد قادیانی ملعون بھی شامل تھا،جس نے سلطنت برطانیہ کے ایماپرجھوٹی نبوت کااعلان کیااوراسلام کے عقائدپرتیشے چلانے شروع کیے،وہ تو 1918 میں قضائے حاجت کے دوران طبی موت کاشکارہوکرنشان عبرت بن گیا،مگرحکومتی سرپرستی میں یہ فتنہ نہ صرف موجودرہا،بلکہ مسلمانوں کے ایمان پرڈاکے بھی ڈالتارہا۔قیام پاکستان کے بعدوطن عزیزکوہائی جیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی،بلکہ اعلی حکومتی عہدوں پر براجمان قادیانیوں نے اس ملک کواس کے اصل مقصدقیام معنی یہاں احیائے اسلام کی منزل سے دورکرنے کی بھی سعی نامشکوربرابرجاری رکھی۔اس کی ایک جھلک ان سطورمیں ملاحظہ فرمائیے:
”قادیانی منتخب ارکان نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور عوام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردی ،وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی نے سات سال کے عرصہ وزارت میں پاکستان کے اندر اور باہر قادیانیوں کی جڑوں کو خوب مضبوط کیا، پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانی بھیجے گئے ۔ پاکستان میں ایک ” نیا قادیان” بسانے کے لئے ایک علیحدہ خطہ ” ربوہ” کے نام سے الاٹ کیاگیا،یوں پاکستان کے قلب میں ایک وسیع خطہ” قادیانی ریاست ” کے لیے مخصوص ہو گیا۔مشرقی و افریقی ممالک میں وسیع پیمانے پر مرزائی مبلغ بھیجے گئے، اورباوجوداس کے کہاگرچہ اسرائیل کی یہودی حکومت سے حکومت پاکستان کا کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا ،مگر تل ابیب اور حیفہ میں مرزائیوں کے مراکزقائم کیے گئے ،یوںبرطانیہ کا خودکاشتہ پودا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ممالک میں ایک تن آور درخت بنتا جارہاتھا ۔ سکندر مرزا اور ایوب خاں کی غفلتوں یا چشم پوشی کی وجہ سے پاکستان کے کلیدی مناصب پرمرزائی چھا ئے ہوئے تھے۔ حکومت نے محکمہ اوقاف کے ذریعے مسلمانوں کی تمام املاک ”وقف ایکٹ” کے تحت قبضے میں لے رکھی تھیں اور قادیانی معاشی طور پرپاکستا ن میں مضبوط ہی نہیں ہورہے تھے،مٹھی بھرمرزائی، پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے تھے،ساتھ ہی مسلم اکثریت کے خلاف سازشوں اوربدمعاشیوں کاسلسلہ بھی جاری تھا”۔(قادیانی عزائم)
اس عظیم فتنے کے خلاف پہلی باقاعدہ تحریک 1953 میں چلائی گئی،مگرحکومتی سرپرستی میں اس تحریک کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاگیااوربے دریغ خون بہاکراورہمہ قسم ریاستی مظالم کے پہاڑ توڑکراس تحریک کواگرچہ بظاہر منزل پرنہ پہنچنے دیاگیا،لیکن ان قربانیوں نے قادیانیت اوراس کے بہی خواہوں پریہ ضرورواضح کردیاکہ حق کے قافلے کویوں بازنہیں رکھا جاسکتا،جدوجہدجاری رہی،علمائے کرام نے اپنے فرض منصبی کے تحت بلاتفریق مسلک وفرقہ عقیدہ ختم نبوت کاپرچارجاری رکھا اوررائے عامہ کواس قدرہموارکردیاکہ ایک کال پرپوری قوم لبیک کی صدائیں لگاتی علماکے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے۔دوسری طرف قادیانی بدمعاشیاں بھی روزبروزبڑھ رہی تھیں،مگراہل اسلام کوامن کادرس دیاگیاتھا،تاکہ کسی جذباتی فیصلے یااقدام کی وجہ سے یہ دوررس محنت رائیگاں نہ چلی جائے۔
دوسری تحریک ،جوبظاہرایک حادثے کاردعمل تھی،الحمدللہ منزل سے ہم کنارہوئی اورقادیانی باقاعدہ طورپرغیرمسلم اقلیت قراردیے گیے،اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:
مئی 1974 کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبا کوقادیاانیوں کی جانب سے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 30کے قریب طلبہ زخمی ہو ئے، ان کا قصورصرف یہ تھا کہ انہوں نے گزرتے ہوئے” ختم نبوت زندہ باد”کا نعرہ لگایاور قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کیا تھا،جس کی پاداش میں اسٹیشن پر روک کر انہیں شدیدانسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس واقعے سے قادیانی عزائم کھل کرسامنے آگئے،یہاں تک کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوبھی یہ کہنے پرمجبورہوگئے: ” واقعہ ربوہ سنگین قومی مسئلہ ہے ۔ یہ واقعہ ملک کی سا لمیت سے تعلق رکھتاہے اور در پردہ مقاصد کے کسی منصوبے کا حصہ نظر آتاہے” ۔انہوں نے یہ بھی کہا: ” قادیانی کتنے خطرناک ہیں ؟ اس کا احساس مجھے ان دنوں میں ہوا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قادیانی مذہب کے لوگ اس قدر خوفناک ارادے رکھتے ہیں۔‘‘( روززنامہ جسارت کراچی 5جون 1974 و مقالہ مولانا تاج محمود ،علوم الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی 1991 )
اس واقعے سے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر ڈورگئی اور 3جون 1974 کوراولپنڈی میں میں علمائے کرام کا نمایندہ اجتماع ہوا جس کوناکام بنانے کیلئے تین مندوبین مولانا مفتی زین العابدینؒ،مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ اور مولانا تاج محمود ؒکو لالا موسی کے اسٹیشن پر روک کر ٹرین سے اتار لیا گیا۔بعدازیں9جون1974 کو لاہور میں 20جماعتوں کا نمائندہ اجتماع ہوا۔جس کی صدارت مولانا سید محمدیوسف بنوری ؒ نے کی اورباہمی اتفاق رائے سے ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم ’’ختم نبوت متحدہ مجلس عمل‘‘کے نام سے مولانا محمدیوسف بنوری ؒ کی زیرصدارت بنایا گیا،پھرمجلس کی طرف سے14جون کو ملک میں مکمل ہڑتال اور مرزائیوں سے سوشل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ 11جون 1974 کووزیر اعظم بھٹو نے ختم نبوت متحدہ مجلس عمل کے قائدین کو قادیانی مسئلے کو افہام تفہیم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی،جس میںمجلس عمل کے صدر مولانا یوسف بنوری ؒ نے فرمایا: قادیانی مسئلہ بلا شبہ پاکستان کے روز اول سے موجود ہے، پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب سر ظفر اللہ قادیانی کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔
لیاقت علی خان مرحوم کو اس خطرناک غلطی کا احساس ہوا، اور انہوں نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا عزم کرلیا تھا ،لیکن افسوس کہ وہ شہید کردیے گئے اور ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ عزم ہی ان کی شہادت کا سبب ہوا ہو۔ اس وقت جو جرت مرزائیوں کو ہوئی ہے اگر اس وقت اس کا تدارک نہ کیا گیا اور وہ غیر مسلم اقلیت قرار نہیں دیے گئے تو مسلمانوں کے جذبات بھڑکیں گے اور ان کی جان ومال کی حفاظت حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ میں مانتا ہوں کہ آپ پر خارجی غیر اسلامی حکومتوں کا دبائو ہو گا لیکن اس کے بالمقابل ان اسلامی ممالک کا جن ممالک سے ہمارے اسلامی تعلقات اور ہر قسم کے مفادات وابستہ ہیں ،تقاضا ہے کہ ان کو جلد غیر مسلم اقلیت قرار دیاجائے۔ اگر آپ حق تعالی پر توکل واعتماد کر کے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ فرمائیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔
16جون1974 ختم نبوت مجلس عمل کی طرف سے فیصل آبادمیں ایک عظیم الشان اجتماع میں کہاگیاکہ: ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد سے جلد آئین اور دستور میں واضح طور پر ختم نبوت پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا جائے اور مرزائی امت جو جھوٹے مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی یا مصلح مانتی ہے، اسے غیر مسلم اقلیت قرار دیاجائے اور قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پاس کرایاجائے۔پھر قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے یکے بعددیگرے دو قرار داد یں بھی پیش کی گئیں۔علماکی ان مساعی جمیلہ کانتیجہ تھاکہ بھٹو مرحوم نے،تمام تراندرونی وبیرونی خطرات اورہرقسم کے دباکونظراندازکرتے ہوئے 7ستمبر 1974 کو اس نازک مسئلے کے حتمی فیصلہ کی تاریخ مقرر کردی۔ چھ اور سات ستمبرکی درمیانی رات بارہ بجے کے بعد مسلمانوں کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیااور اگلے دن 7ستمبر کو ڈھائی بجے رہبر کمیٹی کا اورساڑھے چار بجے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا،انجام کاربحث وتمحیص کے بعد تمام حاضر اراکین کے اتفاق سے مسلمانوں کا مطالبہ منظور کرکے جھوٹے مدعی نبوت مرزاغلام احمدقادیانی کے پیروکارمرزائیوں کے احمدی اورلاہوری دونوں گروپوں کودائرہ اسلام سے خارج قراردے دیاگیا۔
حزب مخالف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے اسی موقعے پریہ تحریک بھی پیش کی کہ پاکستانی ہونے کہ حیثیت سے ان لوگوں کو مکمل انسانی وشہری حقوق دیے جائیں۔یہ قراردادبھی کثرت رائے سے منظورکرلی گئی۔یوں علمائے کرام کی کوششوں،قوم کے اتحاد و اتفاق اورحکمرانوں کی توجہ سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا۔ مسلمانان پاکستان کو شایدکبھی اتنی مسرت نہیں ہوئی ہوگی، جتنی کہ اس خبر سے ہوئی کہ سرزمین پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو آئینی تحفظ فراہم کردیاگیاہے۔عالم اسلام نے اس جرا تمندانہ فیصلے پرپاکستانی عوام،علماورحکمرانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
یہ عظیم دن ہمیں نہ صرف شاندارماضی کی یاددلاتاہے بلکہ ہمیں اپنے فرائض کی جانب بھی متوجہ کرتاہے کہ جو لوگ کسی مادی غرض یاکسی غلط فہمی کی بنا پر اس مرزائیت سے وابستہ ہوئے، انہیں ختم نبوت کاعقیدہ سمجھانے کی محنت کی جائے، ان کے شکوک وشبہات واعتراضات کاازالہ کیاجائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر جس قدر لوگ مرتد ہورہے ہیں انہیں پھر سے اسلام کی دعوت دی جائے۔حاصل یہ کہ ”پدرم سلطان بود”کے مصداق صرف شاندارماضی کے تذکرے کافی نہیں،اپنے فرائض کی انجام دہی اس سے زیادہ ضروری ہے۔