اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

خون دل دے کر نکھاریں گے رخ  برگ گلاب

ہم نے  گلشن  کے تحفظ  کی قسم  کھائی ہے

یوم دفاع۔۔۔!  پاک سرزمین کی آزادی کی حفاظت کا دن ہے،  افواج پاکستان کی مادر وطن سے وفاداری کا ثبوت ہے۔۔۔۔۔!            غیرت مند قوم کی جرات و بہادری کی داستان ہے۔!

یہ وہ دن ہے جب دشمن ملک بھارت میں غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہماری سرحدوں کی طرف ایسے وقت میں قدم بڑھائے جب چور گھروں کے تالے کھولا کرتے ہیں۔بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے ,کمزور کرنے اور نیچا دکھانے کی کوشش کی, اس نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا, دھماکوں کے شور ,بارود کی بو اور دھویں کے بادلوں میں بڑھتے ہوئے ناپاک قدم ، ہمارے شیر دل جوانوں کی غیرت کو للکار رہے تھے۔

 ہمارے جوانوں نے چودہ سو سال پہلے کی اسلامی تاریخ کو روشن کر دیا،65ءمیں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں غزوہ بدر کی عکاسی ہوتی ہے،جب ہماری بہادر فوجی جوانوں نے صحابہ کرام کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے ثابت کیا کہ جنگیں کبھی اسلحے کے زور سے نہیں جیتی جا سکتیں، ممالک کبھی طاقت کے بل بوتے پر فتح نہیں کیے جا سکتے، سلطنتوں کی بنیادیں کبھی تلوار کی نوک سے نہیں اٹھائی جاتیں،جنگیں ہمیشہ جذبوں سے جیتی جاتی ہیں،مومن کا ہتھیار اس کا ایمان اور موت سے محبت ہے غیر مسلم کے لیے شہادت کا فلسفہ سمجھنا مشکل ہے، وطن عزیز پر شہید ہونے والوں نے ایسی موت پائی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔کسی نے سچ کہا تھا یہ بیٹے بازاروں میں دکانوں پر اور شاہراہوں پر بکا نہیں کرتے یہ تو نصیبوں والوں کی گود میں پرورش پاتے ہیں اور اپنی قوم کے محافظ اور اسکی طاقت ہوتے ہیں۔

اے  وطن  تو نے پکارا  تو لہو  کھول  اٹھا

تیرے  بیٹے  تیرے  جانباز  چلے  آتے  ہیں

ہم ہیں جو ریشم و کمخواب سے نازک تر ہیں

ہم  ہیں  جو  آہن و فولاد  سے  ٹکراتے  ہیں

غیور بیٹے منہ سے نکلے قول پر جان دے دیتے ہیں، سر تو کٹا سکتے ہیں مگر قول سے نہیں پھر سکتے، اور بات اگر مادر وطن کی ہو، اپنے ہی گھر اور گلزار کی ہو تو یہی غیرت مند بیٹے قول و قرار سے نکل کر قسم پر آجاتے ہیں، سوچیں جو زبان پر مرمٹیں وہ اگر قسم اٹھا لیں تو پھر کیسی کیسی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔

میجر عزیز بھٹی نے پاسنگ آؤٹ پر جو اعزازی تلوار جیتی، اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اس کا حق بھی ادا کیا۔اعزاز جیتنا ایک خوبی مگر اس کا بھرم رکھنا بہادری ہے۔پھر بہادری کی داستانیں کیپٹن سرور سے شروع ہو کر آگے ہی بڑھتی گئیں جس نے اپنا بانکپن اس گلشن پر قربان کیا ،حوالدار لالک نے ادھیڑ عمری اور کرنل شیر نے سہرے کے پھول اپنی مادر وطن پر نچھاور کئے۔ایسی داستانیں خون جگر میں نوک قلم ڈبو کر ہی لکھی جاسکتی ہیں، سنہری حروف ان کے لئے ماند پڑ جاتے ہیں ،زبان و بیان جس کے آگے ہار جاتے ہیں۔آزادی حاصل کرنا مشکل مگر اس کی حفاظت کرنا مشکل ترین !

دنیا کی تاریخ  ایسی مثالیں دینے سے قاصر ہے جسموں کے اوپر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ جانا اور پلوں کو اڑا دینا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا یہ وہی کر سکتا ہے جس نے وطن عزیز سے عشق کیا ہو اور اس کی حفاظت کرنا جانتا ہو، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہو, جو سر پر کفن باندھ کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر حاضر ہو گیا ہو۔کسی نے کتنا سچ کہا تھا کہ

قوموں  کو  راہ   شہادت  پر  چل  کر  آزادی   ملتی   ہے

جب پودے خوں سے سینچتے ہیں بے جان کلی تب کھلتی ہے

قارئین کرام۔۔! شہیدان ارض وطن نے جو عظیم الشان قربانیاں دیں ہم ان کا صلہ تو ادا نہیں کر سکتے کہ ان کا اجر تو یقینا خدا کے پاس محفوظ ہے لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان کے خلوص اور ارض پاکستان سے ان کی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔وہ جوان جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ اس قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں،ہمیں ان گمنام شہداء کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جن کے نام اگرچہ تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں مگر ان کی لازوال قربانیوں نے ہمیں آزادی کی فضا میں سانس لینے کے قابل بنایا۔ان کا کردار چاند ستاروں سے زیادہ روشن ہے،وہ اس قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔انہوں نے قوم کے لئے جو زخم کھاۓ تو یوں مسکرائے جیسے زخم نہ ہوں، پھول ہوں جو ان کے سینوں پر کاڑھ دیے گئے ہوں۔آج شہیدوں کی روحیں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ ہم نے اس وطن کی خاطر خون بہا دیا کیا تم پسینہ بھی نہیں بہا سکتے؟؟

ہم نے اس وطن کی خاطر اپنی پوری عمر لگا دی، کیا تم اس کی خاطر چند لمحے نہیں دے سکتے؟؟

ہم نے اس کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی، کیا تم اس کی خاطر چند روپیے بھی خرچ نہیں کر سکتے؟؟

خدا ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور اپنے پاس ان کو مقام  بلند عطا فرمائے۔۔

مگر یہ کردار صرف بیان کرنے کے نہیں، یہ داستانیں صرف سنانے کے لئے نہیں، یہ کہانیاں صرف دہرائے جانے کے لئے نہیں،یہ دن محض منانے کا نہیں بلکہ عمل کا وقت ہے۔آئیے عہد کریں کہ اس گلشن کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قابلیتیں لگا دیں گے، اپنا وقت اس پر صرف کریں گے،کبھی اگر اس کو ضرورت پڑی تو اس کی سر بلندی کے لیے اپنا سر دیں گے اور جب کبھی اس کو روشنی کی ضرورت پڑی تو اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے۔