مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اے روئے زمین، تو گواہ ہے نا! اے روئے زمین، تو نے دیکھا ہے نا! وہ شخص کہ جسے دیکھ کر شیطان اپنا راستہ تبدیل کر لیتا تھا۔ وہ جس کے بارے میں وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سینکڑوں احادیث موجود ہیں مگر اس نے ہمیشہ یہی کہا،” میں تو اونٹ چرانے والے کا بیٹا ہوں۔ جی ہاں وہی! کہ جب بھی شہدائے محرم کا ذکر آئے گا تو سب سے پہلے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہو گا۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ! جسے مراد رسول کہا جاتا ہے۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ! جو دین پناہ ہے۔ وہ عمررضی اللہ عنہ! جس نے اسلام کا پرچم چار براعظموں میں لہرا دیا؛ اور پھر بھی اینٹ کا سرہانہ لے کر سو جاتا ہے۔ جو اتنا بارعب ہے کہ کبھی زمین کو دھرا مار کر حکم سنا دیتا ہے اور کبھی دریائے نیل کو اس کی اوقات یاد دلا دیتا ہے۔ اور اتنا دل سوز کے کہ خوف خدا ہے موم کی مانند نرم پڑ جاتا ہے۔

اسلامی کیلنڈر کو دیکھیں تو اس کی ابتدا بھی قربانی سے ہے اور انتہا بھی قربانی پہ ہے۔ یہ دن جو قربانی کا درس دیتا ہے۔ یہ دین جو راہ سے کانٹا ہٹانے پر بھی اجر کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ دین جو صرف مسکرا دینے کو بھی ضدقہ کا درجہ دیتا ہے۔ اس دین کی پہر داری عمر رضی اللہ عنہ نے دس لاکھ مربع میل تک کی اور اور اس دین کی آبیاری اپنے لہو سے کی ہے۔ یہ وہی عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ جو اونٹنی کی مہار تھامے فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوتا ہے تو اہل روم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ کتنا خوب صورت واقع ہے نا! کہ لونڈی جو سر بازار کھڑی رو رہی تھی کہ اس سے تیل زمین پر گر کر بہہ جاتا ہے۔ خوف زدہ ہے کہ مالکن سخت مزاج ہے، سزا دے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ زمین پر دھرا مار کر گویا ہوتے ہیں،” کیا عمر تجھ پر انصاف قائم نہیں کرتا جو تو اس غریبنی کا تیل پی گئی”؛ اور زمین وہ تیل اگل دیتی ہے۔ ہے کوئی ایسی مثال اقوام عالم میں تو لاؤ ذرا ہم بھی تو سنیں!

صاحبو! تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرید رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں مگر واحد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں جو مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ کہ جب محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کیا تو رب کائنات نے مراد اپنے محبوب کی جھولی میں ڈال دی۔ اس دن مکہ میں صف ماتم بچھ گئی کہ ہائے! آج آدھا مکہ ہم سے چھن گیا۔ ایسے میں جب وقت نماز آن پہنچا! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ نماز کی تیاری کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا حضور نماز کہاں پڑھیں گے.؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی کونے میں چھپ کے پڑھتے ہیں۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے قدموں پہ میرے ماں باپ قربان! اگر اب بھی چھپ کے نماز پڑھیں تو عمر کے مسلمان ہونے کا کیا فائدہ.؟ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج نماز کعبتہ اللہ میں پڑھیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عمر کفار کا بڑا غلبہ ہے.سبحان میرے رب کی قدرت! عمر فاروق رضی اللہ عنہ گھوڑے پے سوار ہوئے مکہ کی گلیوں میں جا کر اعلان کیا کہ مکے والو! آجاؤ ! آج میں کلمہ پڑھ کے محمد مصطفی ؐ کا غلام بن کر آیا ہوں۔ آج ہم کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے جارہے ہیں۔ اگر کسی نے اپنی بیویاں بیوہ کروانی ہوں، اگر کسی نے اپنے بچے یتیم کروانے ہوں، تو آجاؤ عمر کے راستے کو روک کر دکھا دو! تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشی میں نعرہ تکبیر خود بلند کیا۔اللہ اکبر کی صدا مکے میں پہلی بار یوں گونجی کے کفر کی علامات منہ کے بل جاپڑیں۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کیا اور مسلمانوں نے کھلے عام عبادت کی۔

کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر اور اللہ کے حکم سے مسلمانوں نے ہجرت کی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اللہ کے احکام کے عین مطابق سفر ہجرت اختیار کیا۔ مگر عمر رضی اللہ عنہ جیسی ہجرت کسی نے نہ کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور علی الاعلان ہجرت کی۔ اور اہل مکہ کی جرآت نہ ہو سکی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے راستے میں آتے۔ مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ پر لاکھوں سلام…۔

13 تبصرے

جواب چھوڑ دیں