میرے بچپن کا کراچی 

کھلے دل و کھلے ذہن ،روایات کے پاسدار،اخلاقی اقدار کے محافظ، مہذب زبان ،اسلام پسند ،محبتوں کے امین،سخی ،مل جل کر رہنے والوں کا ، صاف ستھرا ،فلیٹوں سے پاک کشادہ سڑکوں والا پرامن اور پررونق روشنیوں والا صنعتی شہر ہوا کرتا تھا ۔

یہاں کے باسی  نہ صرف محنتی اور برسر روزگار تھے بلکہ کام کے ساتھ ساتھ ہر موسم کو انجوائے بھی کرتے ،بے خوف و خطر دور دراز تفریحی مقامات پر بھی جایا کرتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے۔

مگر پھر کراچی کو کسی کی نظر لگ گئی یا پھر کراچی کسی کی نظروں میں آگیا!

 اور یہاں کے باسیوں کے درمیان تعصب،لسانیت  ، فرقہ واریت کے ایسے زہریلے بیج بوئے گئے کہ جن کے زہر سے یہ ہنستا بستا شہر برباد ہوگیا۔

یہاں کے باسیوں نے جب اسلام کے بجائے لسانیت اور تعصبات کو  چنا  تو جیسے جانو سلامتی ہی رخصت ہوگئئ

اسکے بعد جو نسل پروان چڑھی اس کی انہیں زہریلے کانٹوں کے درمیان پرورش ہوئئ اس نسل نے کراچی کا وہ سنہرا روپ دیکھا ہی نہیں اس لئیے شاید وہ آج کراچی کی بربادی پر اتنی حساس نہیں اور رہزنوں کو ہی رہبر سمجھ کر ہر بار منتخب کرتی ہے ۔

یہ رہزن آج بھی تعصب،لسانیت ،فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنے گرد جمع تو کرلیتے ہیں مگر بدلے میں  شہر کراچی کی مزید بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔

کراچی کی سلامتی کے لئیے درست فیصلے کرنے ہوں گے عوام کو بھی صاحبان اقتدار کو بھی ۔کراچی منی پاکستان کہلاتا ہے پاکستان کے قیام کی بنیاد  لا الہ الااللہ ہے تو جان لیجئے کراچی کی سلامتی بھی اسی بنیاد سے وابستہ ہے ۔

یہاں ہر زبان ہر قوم ہر نسل ہر مذہب کے لوگ آباد ہیں جن کے حقوق کا تعین صرف اسلام کرتا ہے اسی حقوق و فرائض کی بنیاد پر امن و سلامتی اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔

خدا کرے  شہر کراچی کے باسی دوست دشمن کی پہچان کریں وہ نمائیندے چنیں جو مخلص ہوں، سچے ہوں ،امین ہوں، دیانت دار ہوں اور وہ فصل گل بوئیں جسے زوال کا اندیشہ نہ ہو    ۔آمین

جواب چھوڑ دیں