اصل فسادی کون؟؟؟

گویا ایک وتیرہ ہی بن گیا ہے کہ جہاں کوئی غلط بات سامنے آئے وہیں منہ بھر کر الزام کسی مولوی پر لگادو یا پھر دین و مذہب کے نقائص کو زیر بحث لا کر لادینیت کے فوائد کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دو ۔

ایک بلی کا واقعہ سامنے آیا تصدیق نہیں کی گئی مگر کئی مخالف تحریریں دیکھیں،ایک محترمہ کی وال پر اس حوالے سے بھی مولویوں اور پردے کے خلاف تبصرہ دیکھا۔دراصل ایک خاص طبقے نے یہ طے کر لیا ہے کہ ساری خامیاں اور ساری برائیاں بس اپنے ہی لوگوں میں تلاش کریں گے وہ بھی بغیر تحقیق کے اس ضمن میں لادین طبقہ خواہ اس کا تعلق لبرل ازم سے ہو یا کمیونزم سے سب ایک ہی گٹر کا پانی پیتے نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں طالبہ کی خود کشی کا واقعہ سامنے آیا تو پروفیسر صاحب کے اگلے پچھلے سارے گناہ اگلوانے کی جیسے قسم ہی کھا لی ہو بعد میں کیا ہوا ؟ پتا چلا کہ وہ طالبہ بیچاری شیزوافرینیا کی مریضہ تھی اور اس کے بھائ کے بیان کے مطابق کئ بار پہلے بھی خود کشی کی کوشش کر چکی تھی۔اس خبر کے ساتھ ہی کچھ جگہوں پر پھر کسی مولوی کے کردار کا ذکر ہوتا دیکھا اور پھر یہی نہیں اس وقت سے لے کر اب تک اساتذہ میں وہ کیڑے نکالے جارہے ہیں کہ الامان الحفیظ کہ جیسے اساتذہ کی کوئ اہمیت کوئ تقدس ہی نہ ہو جگہ جگہ ایک ہی جیسی منفی باتیں پڑھ کر افسوس ہوتا رہا۔

اسی طرح ایک ویڈیو وائرل ہوئ جس میں والد محترم نکاح کے بعد اپنی بیٹی کو پیار کر رہے ہیں تو جس طرح اس مقدس رشتے کی آنا فانا دھجیاں اڑائیں گئیں دل تڑپ ہی اٹھا اب ان والد صاحب کا پیغام پڑھنے کو ملا کہ جس میں انھوں نے کہا کہ وہ خودکشی کے قریب ہیں۔بات یہ ہے کہ اس طرح کی بے سروپا باتوں سے پورا معاشرہ ہی خودکشی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ہمارے نبی ؐ کا فرمان ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ بغیر تصدیق کے بات آگے بڑھادے۔

مگر محض چسکے لینے کی خاطر ایک خاص طبقہ ان باتوں کو بڑھا چڑھا کر تیزی سے پھیلاتا ہے جس کا شکار وہ لوگ بھی بن جاتے ہیں جن کا نشانہ دین اور مذہب نہیں ہے مگر فوری طور پر انسانی ہمدردی کے نتیجے میں بغیر تصدیق کے رد عمل دے بیٹھتے ہیں۔کم از کم ہم خود تصدیق نہیں کرسکتے تو اس طرح کی خبروں کو اتنا تو ٹائم دیں کہ سچ سامنے آجائے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ میرا یہ بات پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ معاشرے میں کچھ برا نہیں ہے اور سب اچھا چل رہا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ سبھی کچھ برا نہیں ہے اور اتنا برا ہر گز نہیں ہے جتنا کہ پیش کیا جارہا ہے۔دوسری اہم بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ واقعہ کسی بھی رنگ کا ہو مجرم کوئ بھی ہو لیکن نہ جانے کہاں سے بیچ میں مولوی کو گھسیٹ لیا جاتا ہے آخر یہ رویہ کس بات کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کے پیچھے کیا مقصد کارفرما ہے اسے سوچنے کی اب بہت ضرورت ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ پاپائیت اور شہنشہائیت کی کشمکش سے، نشات ثانیہ کے نام پر پیدا ہونے والا لبرل ازم اور اس سے پیدا ہونے والے سوشلزم اورکمیونزم نے جو لادین اور خدا بیزار طبقہ پیدا کیا ہے وہ دراصل فساد کی اصل جڑ ہے ۔میں سے میں تک کا سفر ان ہی معذور نظریات کا پیدا کردہ ہے جس میں کمزور،لاچار اور بیمار بوجھ ہیں گو کہ ظاہر میں یہ مظلوم طبقے کے خیراخواہ نظر آتے ہیں مگر اندر سے ایسا نہیں ہے۔ اور ہر شخص جو ان ہچکیاں لیتے نظاموں کے متعلق بخوبی جانتا ہو وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ لبرل ازم کی کڑیاں بالآخر کس طرح کمیونزم سے جا ملتی ہیں اور کمیونزم کس طرح سرمایہ داری کی راہ ہموار کرتا ہے جس کی پختہ سڑک سوشلزم ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ کسی کو اس پر حیرانی ہو کہ بظاہر مختلف نظریات کی کڑیاں میں نے ایک جگہ ملانے کی کوشش کی ہے مگر ان کو اسلام مخالف پروپیگنڈے اور استیصالی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ آپ کو بھی اسی ترتیب سے نظر آئیں گے۔یہی وہ بد بخت نظام ہیں جنھوں نے آزادی اور حقوق کے نام پر جدو جہد سے عاری طبقہ پیدا کیا اس کی جینز کے لٹکتے دھاگے بھی گناہ آلود ہیں ۔مگر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اپنے ہی کیے گئے گناہوں اور اپنے ہی لائے گئے عذابوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پہلے ہی ایک لابی واویلا مچانا شروع کردیتی ہے اور عام عوام کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں نظریاتی لوگ بھی اس سازش کا شکار بن جاتے ہیں۔ آج جو کچھ ہورہا ہے یہ دراصل ایک طویل عرصے کی سازش کا نتیجہ ہے اور بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ خود وطن عزیز کی بیٹیاں جب اپنی ناموس کو غیروں کے قدموں تلے روندھنے پر آئیں تو ان کی ایجنٹ بنیں جن کے نام اور کام سے سب ہی واقف ہیں۔

مادر پدر آزادی کے نعرے لگانے والے،موم بتیاں جلانے والے،سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کہ نعرے لگانے والے کون ہیں ان کے کیا مقاصد ہیں اور ان کے کام کا طریقہ کار خبروں کو خاص انداز میں پھیلانے کا طریقہ کار کیا ہے انھیں کس نے منظم کیاہے اس بات کا جائزہ لینا اب بہت ضروری ہوگیا ہے۔کم از کم اتنا تو سب ہی جانتے ہیں کہ کون ہیں جو اسلام کے مطابق سزا کی بات آجانے پر اچھل پڑتے ہیں اور کون ہیں جو کبیرہ گناہوں کے علمبردار ہیں۔جی ہاں!یہی تو وہ لوگ ہیں جو ان تمام جرائم کو پیدا کرنے اور بڑھانے کے ذمہ دار ہیں اور ایک طویل وقت لگا ہے ان کو ایسے مینڈک پیدا کرنے میں جو دو قومی نظریے سے انحراف کر کے مذکورہ نظریات کا خمیرہ کھا کر اچھلنا سیکھے ہیں۔جانیے پہچانیے ہوشیار رہیے اور ان کے خلاف عملی اقدام کیجیے۔

جواب چھوڑ دیں