معاہدہ ابراہیم اور اسرائیلی سفیر امریکہ

امریکی و برطانوی زیرسرپرستی سرزمین فلسطین پر یہودیوں کی آبادکاری کے بعد سے فلسطینی مسلمان اپنے وجود کے بحران سے دوچار ہیں۔ عرب روز اول سے ہی صہیونی تسلّط کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد عرب اسرائیل جنگیں بھی ہوئیں، 1948، 1956 اور 1967 کی جنگوں میں عربوں کو نقصان اٹھانا پڑا ابھی ماضی کے زخم تازے ہی تھے کہ 1973 میں ایک اور عرب اسرائیل جنگ پھوٹ پڑی جسے رمضان جنگ بھی کہا جاتا ہے اس بار عرب اتحاد نے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوے انتہائی منظم طریقے سے صہیونی جارحیت کا جواب دیا جس میں اسرائیل بھاری جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر شکست سے دوچار تھا لیکن امریکہ و دیگر مغربی ممالک کی بروقت مدد سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور شکست خوردہ اسرائیل ایک بار پھر عربوں پہ بازی لے جانے لگا جس کے ردعمل میں عربوں کے امریکہ سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے اور عربوں نے اسرائیل کی مدد کرنے والوں کو تیل کی سپلائی بند کردی نتیجتاً امریکہ و یورپ میں زندگی کا پہیہ شدید متاثر ہوا، فیول کا بحران پیدا ہوگیا،، پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں، یہ پہلا موقع تھا جب اہالیان مغرب کو یہ احساس ہوا کہ وہ کس قدر عرب ممالک کے محتاج ہیں۔ اس بحرانی کیفیت میں امریکہ بہادر نے شاہ فیصل کو براہ راست دھمکی بھی دی لیکن شاہ فیصل شہید پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو مجبوراً امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے، امریکہ عرب کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دوران امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر کو مشرق وسطیٰ کے دس دورے کرنا پڑے، شاہ فیصل کی قیادت میں عربوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اسرائیل فلسطین کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے۔ فلسطین کا مسئلہ تو حل نہ ہوا لیکن دنیا نے دیکھا کہ شاہ فیصل کو اس واقعے کے ایک سال کے اندر اندر شہید کردیا گیا اور اس کے بعد سے کسی عرب نے امریکہ بہادر کے سامنے سر نہ اٹھایا۔ اسرائیل امارات تعلقات کی بحالی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اہم کامیابی قرار دیتے ہوے اسے ابراہیم معاہدہ کا نام دیا جسے وہ اپنی الیکشن مہم کے لیے بطور آلہ کے استعمال کریگا لیکن یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی کاوش نہیں بلکہ امریکی دیرینہ پالیسی ہے جیسا کہ صدر بل کلنٹن نے اسرائیل فلسطین بات چیت کے دوران فلسطینی صدر اور اسحاق رابن کے لیے یہی الفاظ دہرائے تھے کہ:

You are cousins

اگر ہم اسرائیل کی سات دہائیوں پہ مشتمل تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ امر واضح ہے کہ امریکہ شروع ہی سے اسرائیل کے سفیر کے طور پر کام کررہا ہے۔ یہودیوں کی آبادکاری میں بھی امریکہ برابر کا شریک تھا، اس ضمن میں اینگلو امیرکن انکوائری کمیٹی 1946 کے تحت یہ امریکہ ہی تھا جس نے یہودیوں کو ان کی خواہش کے مطابق فلسطین میں آباد کیا۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ یہود کے سامنے یورپ کے کسی بھی خطے میں آبادکاری کے آپشن رکھے گئے تھے لیکن انہوں نے تھیوڈور ہرلز کی تجویز کے تحت فلسطین کا انتخاب کیا جسے برطانیہ سے زیادہ امریکہ نے منظوری بخشی اور اسرائیل کے قیام کے بعد سب سے پہلے امریکہ بہادر نے ہی اسے تسلیم کیا تھا۔ سالانہ چار سے پانچ ارب ڈالر فوجی امداد کے طور پر دیتا آرہا ہے جبکہ ستر سالوں میں ابتک فلسطین کو بشمول رفیوجی کیمپ کل 6 ارب ڈالر امداد دی ہے۔ امریکہ نے ہتھیاروں کی فراہمی میں بھی اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ عرب اقوام کو اسرائیل کے مد مقابل اسلحہ نہ فراہم کیا جائے، اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مفادات کے خلاف ہر قسم کی قراردادوں حتیٰ مذمتی قراردادوں کو بھی ویٹو کرتا آیا ہے اور سات دہائیوں میں اوباما انتظامیہ میں صرف ایک موقع ایسا آیا جب امریکہ نے اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہونے دی جس کے نتائج امریکہ میں شاید اب آکر برآمد ہونا شروع ہوے ہیں تو امریکہ بہادر ایک بار پھر فرض شناس بچہ بن کر اسرائیلی خدمت میں پیش پیش ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے گولان ہائیٹس پر اسرائیل کا حق تسلیم کیا جوکہ امریکی پرانی پالیسی ہے جمی کارٹر سے بل کلنٹن تک اسرائیلی مقبوضہ جات کو جائز قرار دیتے آئے ہیں، صدر بش سے جب اس بارے پوچھا گیا تو جواب دیا کہ یہ ill-advice ہے لیکن ناجائز نہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پیش کی جانے والی ڈیل آف سنچری کے تحت یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا گیا اور امریکہ نے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا جو 1995 میں امریکی کابینہ قانون منظور کرچکی ہے کہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا جائے۔ امریکہ شروع سے ہی اسرائیلی سفیر کے طور پر موجود رہا ہے اور عرب شروع سے ہی اسرائیل کے سخت دشمن رہے ہیں اور محض پچیس سالوں میں چھوٹی موٹی لڑائیوں کے علاوہ چار بڑی جنگیں بھی ہوئیں، یوم کپور جنگ کے بعد عرب امریکہ و مغرب سے بھی دور ہوتے جارہے تھے کہ شاہ فیصل کی شہادت اور ایرانی انقلاب کے بعد عرب کی اسرائیل سے توجہ ہٹ گئی اور وہ ایرانی انقلاب کی ایکسپورٹ کو روکنے تک محدود ہوکر مجبوراً امریکہ کے قریب ہوئے۔ ابراہیم معاہدہ بھی ایرانی خوف کا نتیجہ ہے کیونکہ رواں سال اکتوبر میں ایران اسلحہ خریداری کی پابندیوں سے آزاد ہوجائیگا اور سو سے دو سو ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے جس پر سعودی عرب اور امارات کو سخت تشویش ہے کہ وہ اپنی پراکسیز کے زریعے انہیں عدم استحکام کا شکار کرسکتا ہے جس خطرے کے پیش نظر یو اے ای کو امریکہ کی طرف جھکنا پڑا، افسوس کہ وہ ستّر سالہ پرانی دشمنی اور لاکھوں فلسطینیوں کے خون کو تو بھلا بیٹھے لیکن ایران کی بات چیت کی پیشکش کے باوجود اس تنازعے کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور اس حد تک آگے نکل آئے کہ نہ صرف اپنے دیرینہ ساتھی پاکستان کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں بلکہ عام مسلمانوں کے جذبات کی بھی پرواہ نہیں۔

جواب چھوڑ دیں