میرے جگنو میرے تارے

حاجرہ بیگم کھانے کی میز پر اپنے بیٹے،بہو،انکے بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔انکے پوتا ،پوتی بہت  شرارتی،اور ذہین تھے۔وہ اپنے عزیز پوتے کو اپنے برابر میں بٹھائے کھانے کے ساتھ خبریں بھی دیکھ رہی تھیں۔

وہ ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لیے،خبر نامہ ضرور دیکھتیں۔اور آج کل کرونا کی وجہ سے کھانے کے وقت بھی ٹی وی  چلتا رہتا۔

ٹی وی پر کرونا الرٹس کے درمیان،اشتہارات آنے شروع ہوگئے۔۔پہلے صابن کا، پھر شیمپو، پھر کولا کولڈرنک، انکا پوتا کھانا چھوڑ کر نہایت انہماک سے کمرشلز دیکھ رہا تھا۔۔

اسکی چھوٹی بہن عیشاء نے کہا۔۔۔

بھائ۔۔امی کہتی ہیں کہ جب ایسے کمرشلز آئیں۔تو فورا آنکھیں بند، یا  جھکا لیں ۔اور فورا چینل بدل دیں۔ورنہ شیطان سر پر سوار ہوجاتا ہے۔

عیشاء 8سال کی تھی۔اپنی امی سے بہت قریب تھی۔

اسکے برابر میں اسکے بڑے بھائ عمر نے فورا شرارت سے کہا۔۔۔

اور اگر دوسرے چینل پر بھی یہی کمرشل آرہے ہوں تو۔۔۔؟؟

اسکی بات پردادی کے برابر بیٹھے عکاشہ کو ہنسی ائ۔۔ساتھ اچھو لگ گیا ۔کھانسی روکنے کی کوشش میں،وہ جو کولا کولڈرنک پی رہا تھا۔

آواز کے ساتھ اسکے منہ سے فوارہ بلند ہوا۔عکاشہ کے منہ میں موجود کولڈرنک بمعہ کھانے کے تمام لوازمات کے ساتھ ،کھانے کی میز پر بکھرے ہوئے تھے۔

اس صورتحال پر تینوں بہن بھائ لمحہ بھر حیران ہوئے ۔

اب عیشاء،عمر دونوں ہنس رہے تھے۔عکاشہ مسلسل کھانس رہا تھا۔اسکی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔

اسکی امی نے اسے پانی پلایا ۔اسکی کمر سہلائ۔۔

بند کرو یہ ٹی وی۔

دادی کی گرجدار آواز گونجی ۔۔

یہ کمرشلز نہی بے حیائی،تباہی کا طوفان ہے۔غضب خداکا،مساجد اسکول سب بند کردیے۔مگر ان اشتہارات پر پابندی نہی لگائی جاتی۔نہ کوئ تہذیب، نہ شرم،نہ حیا ، نہ خدا کا خوف ۔انکھیں بند کر رکھی ہیں۔سب نے۔۔

حاجرہ بیگم سخت غصہ میں تھیں۔

ٹی وی بند،عیشاء،عمر کی ہنسی کو بریک لگ چکا تھا۔

اب عکاشہ کی حالت ٹھیک تھی۔مگر دادی کی خراب تھی۔کیونکہ ۔۔وہ اسکے برابر میں بیٹھی تھیں۔عکاشہ کے منہ سے نکلنے والے لوازمات سے وہی سب سے ذیادہ متاثر ہوئیں تھیں۔۔اور کرونا کا خوف۔۔

وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔انکی بہو،شبانہ ٹیبل صاف کرنے لگیں۔

دادی کمرے سے باہر ائیں۔لباس تبدیل،چہرے پر ماسک،ہاتھ میں دستانے۔کھانے کی میز سے کولا کولڈرنک کی بوتل اٹھائی۔

اب یہ کولا کل سے گھرنہی آنی چاہئے۔۔۔!اور کھانے کے وقت ٹی وی بند رہے گا۔

انھوں نے اپنے بیٹے تیمور کو سخت نظروں سے دیکھا۔

جی امی ۔۔انھوں نے فرمانبرداری سے سر جھکایا ۔

انکی بیگم زبانی مسکرائیں۔یہی وہ کہتی تھیں۔لیکن تیمور صاحب کولا کولڈرنک پینے کے اتنے شوقین تھے کہ بچوں کو بھی عادت ڈال دی۔جبکہ یہ مضر صحت ہے۔

دادی نکولڈرنک کی بوتل اٹھائے ،کچن کی طرف بڑھیں۔۔۔

دادی امی پلیز آج دے دیں۔کل سے نہی لائیں گے۔عکاشہ انکے چہیتے پوتے نے پکارا۔

دادی نے رک کر سخت کڑی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

بیٹا تم نہی جانتے یہ لذیذ ذائقہ دار زہر ہے،نقصان دہ۔۔۔

یہ کہتے ہوئے  انہوں نے کچن کے سنک میں کولڈرنک انڈیل دی۔

بچے منہ بسور کر بیٹھے تھے۔تیمور صاحب اور شبانہ مسکرا رہے تھے۔

حاجرہ بیگم اپنے کمرے میں بند تھیں۔گویا وہ ناراض تھیں۔جیسے جیسے اگست کا مہینہ قریب آتا انکی طبیعت خراب ہونے لگتی۔

پاکستان ہجرت کرکے آئیں تھیں۔انھیں وہ واقعات یاد آنے لگتے۔۔طبیعت اداس،روتی رہتیں ۔

آج بھی انکی بیٹی ان سے ملنے آئیں تھیں۔انکے بیٹے ،بچے انکے پاس بیٹھے،انکا دھیان بٹانے کی کوشش میں تھے۔

وہ بتارہیں تھیں۔

میرے دادا،دادی،ہم بہن بھائی،سب لوگ تنگ گلیوں میں بھاگتے،پناہ کی تلاش میں،اور جان بچانے کی کوشش میں بدحال تھے۔۔سکھوں،ہندووں نے ہر طرف آگ لگارکھی تھی۔انسانوں کے جسم کی چربی جلنے کی بو فضاء میں پھیلی تھی۔سکھوں،ہندووں کے مکروہ قہقہوں کی آواز سماعتوں سے ٹکراتی تھی۔معصوم بچوں،عورتوں کے رونے کی آوازیں۔راستوں میں سربریدہ،خون آلود،کٹی پھٹی لاشیں دیکھتے ،زخموں سے چور ہم چار پناہگاہیں بدل چکے تھے۔اگست کا مہینہ بارش،سردی۔میں ٹھٹرتے،بھوک سے کتنے بچے،ضعیف دم توڑ گئے۔جب ہم پاکستان پہنچے تو میرے نو (۹) چاچا  شھید ہوچکے تھے۔ایک کی ٹانگ سکھوں کی تلوار کے وار سے زخمی تھی۔وہ ساری زندگی لنگڑا کر چلتے رہے۔۔میری امی سب کو یاد کرکے روتی رہتیں۔انکی آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئ۔۔

پاکستان بنانے کے لئے اتنی قربانیاں دیں۔کیوں؟؟؟

سب کی آنکھیں نم تھیں۔

تاکہ ہم ہندوؤں ،انگریزوں کی ذہنی،سیاسی غلامی سے آزاد ہوسکیں۔ہماری نسلیں آذادی کے ساتھ،ہمادے دین،تہذیب ،اصول و روایات کے مطابق باحیا ماحول میں پروان چڑھیں۔

پاکستان ایک ایسا خطہ سرزمین جو سارے مسلمانوں کو متحد کرے۔انکی نمائندگی کرے۔انکے زخموں پر مرہم رکھے انکے درد کا مداوا کرے۔انکی آواز بنے ۔مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلائے۔

ان لوگوں نے شھیدوں کے لہو سے غداری کی ہے۔اس عظیم مقصد کو فراموش کردیا،اس مشن کو سبوتاژ کردیا۔

یہ میڈیا کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔یہ بے مقصد ڈرامے،حیا سوز کمرشلز ،ثقافت،تہذیب،تفریح کے نام پر بسنت،میوزءکل نائٹ،ویلنٹائن ڈے،جشن بہاراں،۔۔

یہ ہمارے درد کا مداوا ہے یا ہمارے زخموں میں اضافہ ہے۔پوری قوم کو بے حیائی،غلامی کا سبق پڑھایا جارہا ہے۔

وہ غم سے نڈھال تھیں۔رونے سے آنکھیں سوجھ چکیں تھیں۔۔

اور اب مندر بنائے جارہے ہیں۔

امی ۔حاجرہ بیگم کی بیٹی نے انکے آنسو صاف کئے ۔۔

یہ چند لوگ ہیں جو دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔یہ ہمیں مایوس کرنا چاہتے ہیں۔اپنے جھوٹ،دھوکے،فریب سے یہ ہمارے اعصاب شل کرکے ہمیں توڑنا ،گرانا چاہتے ہیں۔

لیکن ہم ان شر انگیز قوتوں کے سامنے کھڑے ہیں۔اور ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔نہ ہم مایوس ہونگے نہ دل شکتہ۔۔

امی جان ۔اپ بھی مایوس نہ ہوں۔ہمارے شھیدوں کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ہم اپنے مشن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اگر آج شر کی قوت زور آور نظر آرہی ہے۔مگر غالب تو خیر نے ہی ہونا ہے۔

حاجرہ بیگم اٹھ کر بیٹھ گئیں۔نئے عزم کے ساتھ انکی نم آنکھیں جگمگارہی تھیں۔

بیٹی تم جانتے ہو جو چیز کسی قوم کو زندگی رکھتی ہے۔مضبوط توانا کرتی ہے۔متحد رکھتی ہے۔وہ اصول جو اسکی دین کی اساس ہیں،تہذیب کی بنیاد ہیں۔اور جو توڑنے کمزور کرنے کی چیزیں ہیں وہ  مادیت،دنیا پرستی، فرقہ پرستی، عشرت و سطوت کی ہوس، دنیا میں قوموں کو بے وقعت کردیتی ہے۔

ہمارے پاس ہماری پاکیزہ تہذیب ہے۔ ہماری ثقافت، روایات ان غلاظتوں سے پاک ہیں۔جو یہ  میڈیا والے دکھاتے، بتاتے ہیں۔اپنی نسلوں کو ان پاک بنیادوں پر قائم رکھنا۔

ارے میری دادی امی ۔۔اپ فکر نہ کریں۔میں بڑے ہو کر پاکستان کا وزیر اعظم بنوں گا۔میڈیا کو اور سارے اداروں کو ٹھیک کردونگا۔سارے ناہلوں، کرپٹ لوگوں کو نکال دوں گا ۔ٹھیک۔۔کہئیے۔۔آمین۔۔

عکاشہ انکا چہتا پوتا انکا بازو تھامے چیک رہا تھا۔

سب بے ساختہ مسکرائے تھے دادی نے بھی مسکرا کر اسکی پیٹھ تھپکی۔

ہاں بیٹا تقریر تو بہت اچھی کی ہے۔

ارے دادی امی۔۔یہ تو بس تقریر کرتا ہے۔میں آرمی چیف بنوں گا۔اور انڈیا کی فوجوں کو ایسے ماروں گا جیسے چین نے انھیں مارا ہے۔پھر کشمیر،بھادت آزاد  اور ہمارا ہوگا۔

عمر نے جوش سے کہا۔

انشاء اللہ۔۔دادی نے خوش ہوکر دعا دی۔

میرے بچوں۔۔۔!تم ہی تو میرے جگنو،میرے تارے،میری آس ہو۔اللہ تمہیں کامیاب کرے۔دشمن کی ہر سازش کو ناکام بناؤ۔

امی چلیں اب کھانا کھالیں۔

تیمور صاحب والدہ کو کھانے کی میز پر لے آئے۔

آج میز پر صرف پاکولا رکھی  تھی۔

دادی امی اب ہمارے دشمن کی بنائی کسی کولا کو ہمارے دسترخوان پر جگہ نہی ملے گی۔

عشاء نے کہا۔

میرے بچوں آذادی بہت بڑی نعمت ہے۔آزادی کی حفاظت کے لئے۔اور اسلام کے سنہری اصول قائم کرنے کے لئے دشمن سے ہر محاذ پر لڑنا پڑتا ہے۔۔اللہ ہم سب کو استقامت عطا فرمائے۔اور پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنائے۔امین۔۔

سب کے دل دعاگو تھے۔اور اس جدوجھد میں سب اپنا حصہ ڈالنے کے لئے پر عزم تھے۔

جواب چھوڑ دیں