صلہ رحمی

انسانی معاشرے میں خاندان ایک بنیادی اکائی ہے۔ انسانی نفوس میں اللہ کا تقوی ہی وہ بنیاد ہے جو انسانوں کو باہم جوڑ کر ایک مستحکم سوسائٹی برپا کرتا ہے۔ایک دوسرے سے محبت، ضرورت پڑنے پر مدد، اور باہم پشتیبانی انسانی معاشرے کی شیرازہ بندی کرتے ہیں۔خاندان کی تنظیم کے اصولوں میں ، کنبے میں شامل تمام افراد کوباہم جوڑنے ، ان کا احترام کرنے، اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔اسلامی معاشرے کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آدابِ تہذیب میں والدین کے ادب اور اطاعت اورقرابت داروں کے حقوق کی نگہداشت کو ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے۔اور ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ اصول طے کر دیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعے سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔اسلام کی یہ تعلیمات محض انفرادی اخلاقی تعلیم ہی نہیں، بلکہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست انہیں بنیادوں پر استوار کی گئی تھی، اور معاشرے کا اخلاقی نظام عملاً ایسا بنایا گیا، کہ اجتماعی ماحول میں فیاضی، ہمدردی اور تعاون کی روح جاری و ساری ہو گئی۔

صلہ رحمی کے لغوی معنی

عربی زبان میں ’’صلہ‘‘ کا مادہ ’’وصل‘‘ ہے، اور صلہ کا جمع صلات ہے جس کے کئی معنی ہیں، جیسے: وہ شے جو کسی کو دی جائے، انعام ، نیکی اور احسان بھی صلہ کہلاتا ہے۔صلہ دو یا زیادہ چیزوں کو ملانے اور جمع کرنے کو بھی کہتے ہیں۔ (معجم المعانی) رحم لغوی طور پر ماں کے پیٹ میں اسقرارِ جنین کے مقام کو کہتے ہیں، جو رشتے اور قرابت کا سبب ہے۔ اسی لئے رشتہ داروں کے لئے ذو الارحام اور ذوی القربی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

رحم، عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لئے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار، خواہ دور کے ہوں یا قریب کے، اس کے ذوی الارحام ہیں۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو، اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے، اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو، اس سے دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اس کے لئے ممکن ہو، اس سے قصداً پہلو تہی کرے۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص۲۶)

صلہ رحمی کے اصطلاحی معنی

شرعی اصطلاح میں صلہ رحمی ایسے رشتوں کے اجتماع کو کہا جاتا ہے جن کا باہم نکاح حرام ہو۔اس طرح ننھیال اور ددھیال کے ماموںزاد اور چچا زاد رحم کے رشتوں میں شامل نہیں ہیں۔اور ایک قول کے مطابق رحم کے رشتوں سے مراد وہ رشتے ہیں جو میراث میں شریک ہیں۔اور دوسری رائے میں خواہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں یا نہ ہوں، قرابت کے لحاظ سے صلہ رحمی کی حد میں شامل ہیں۔یہ امر نہایت پسندیدہ ہے کہ بندہ اپنے نسبی اور سسرالی رشتوں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے، خواہ میل جول کے ذریعے سے، یا ان کی مالی مدد کر کے یا ان کی خدمت کر کے ، انہیں مشورہ دے کر، اور کبھی نصیحت کر کے، کبھی مسکرا کر اور کبھی خندہ پیشانی سے بات کر کے ان کا حق ادا کرے۔ اور اگر ان کی جانب سے درشت روی ، یا رکھائی برتی جائے تو بھی وہ اپنا حسنِ عمل ترک نہ کرے۔

صلہ رحمی وہ عظیم اصول ہے جس پر پوری زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اس کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس بارے میں واضح ہدایات دی ہیں؛ فرمایا:

۱۔ ’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘۔ (النساء، ۱)

ارحام سے مراد رحمی رشتے ہیں،اس کو اللہ پر عطف کر کے اس کی وہ اہمیت بیان کی گئی ہے جو دین میں ہے۔اس سے معلوم ہو کہ خدا کہ بعد وہ پہلی چیز جو تقوی اور احترام کی سزاوار ہے وہ رشتہء رحم اور اس کے حقوق ہیں۔خدا سب کا خالق ہے اور رحم سب انسانوں کے وجود میں آنے کا واسطہ اور ذریعہ ہے۔اس لئے خدا اور رحم کے حقوق سب پر واجب ہیں۔اسی بنا پر اللہ تعالی نے رحم کا یہ درجہ رکھا ہے کہ جو اس کو جوڑتا ہے خدا اس سے جڑتا ہے اہو جو اس کو کاٹتا ہے خدا اس سے کٹتا ہے۔ (تدبّر قرآن، ج۲، ص۲۴۶)

۲۔ ’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق‘‘۔ (الاسراء،۲۶)

۳۔ ’’ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، انہیں برقرار رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے‘‘۔ (الرعد، ۲۱)

صلح رحمی کا متضاد قطع رحمی ہے، جس کو ناپسندیدہ خصلت قرار دیا گیا، ارشاد ہے:

۔ ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں پھر فساد برپا کر دو اور اپنے رشتے ناتے توڑ ڈالو؟‘‘۔(محمد، ۲۲)

۔ ’’پس قرابت دار، مسکین اور مسافر کو ان کے حقوق دو۔ یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی کامیاب لوگ ہیں‘‘۔ (الروم، ۳۸)

۔ ’’اور جب تقسیم کے موقع پر کنبے کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان کے سامنے بھلے مانسوں کی سی بات کرو‘‘۔ (النساء، ۸)

اسلام میں قطع رحمی حرام ہے۔ اور صلہ رحمی کو متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ِ کریم ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۶۱۳۸) گویا صلہ رحمی اللہ اور آخرت پر ایمان کے ثمرات میں سے ہے۔

رسول ِ کریم ؐ نے فرمایا، کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

’’میں رحمن ہوں، اور رحم (رشتہ) کو میں نے اپنے نام سے مشتق کیا ہے۔ جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑ دوں گا، اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹ دوں گا‘‘۔ (سنن ابو داؤد۱۶۹۴؛ الترمذی، ۱۹۰۷)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جسے پسند ہو کہ اللہ اس سے محبت کرے اور اس کے رزق میں وسعت عطا کرے، اور اس کی عمر میں برکت دے، تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے‘‘۔(رواہ البخاری، ۵۹۸۶)

قطع رحمی کرنے والے کا گناہ

جبیر بن مطعم نے خبر دی، کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپؐ نے فرمایا: ’’قاطع رحم جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۹۸۴)

رشتہ ناطہ توڑ دینا یا رشتہ داری کا پاس و لحاظ نہ کرنا اللہ تعالی کے ہاں بے حد مبغوض ہے، رسول ِخدا ؐ نے فرمایا:’’قیامت کے دن رحم (جو رشتہ داری اور تعلق کی بنیاد ہے) عرش ِالہی پکڑ کر کہے گا، کہ جس نے مجھے دنیا میں جوڑے رکھا، آج اللہ تعالی بھی اسے جوڑے گا (یعنی اسے انعام و اکرام عطا کرے گا) اور جس نے مجھے( دنیا میں) کاٹا اسے آج اللہ بھی کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی سزا دے گا)۔(رواہ البخاری، ۵۹۸۹)

احادیث سے ثابت ہے کہ دنیا میں دو گناہ ایسے ہیں جن کی آخرت کی سزا کے ساتھ دنیا میں بھی سزا ملے گی: ایک ظلم اور دوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ، ۴۲۱۱)

صلہ رحمی کے فضائل

صلہ رحمی کرنے والے کو دنیا و آخرت دونوں میں بھلائیاں ملتی ہیں، جیسے:

۔ صلہ رحمی دخول ِ جنت کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی نیکی ثواب میں صلہ رحمی سے زیادہ نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی گناہ ایسا ہے کہ اللہ اس کے کرنے والے کو دنیا میں جلد سزا دے، اور اس کے بعد آخرت کا عذاب بھی ہوگا، سوائے سرکشی اور قطع رحمی کے‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۲۵۱۱)

صلہ رحمی گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ 

ایک شخص رسول اللہ ؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ، میں نے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ کیا میری مغفرت ہو سکتی ہے؟ آپؐ نے پوچھا: کیا تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا : نہیں۔ آپؐ نے پوچھا: اور خالہ؟ اس نے کہا: وہ زندہ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: پس ان سے نیکی کر‘‘۔(رواہ الترمذی، ۱۹۰۴)

اس سے معلوم ہوا کہ بڑے گناہ کا صدور ہو جائے تو بڑی نیکیاں ان کے مٹانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اور گناہ کے بوجھ میں دبے ہوئے شخص کو صلہ رحمی کے ذریعے مغفرت کی امید دلائی گئی۔ ماں کی خدمت کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے تو خالہ سے حسنِ سلوک بھی مغفرت کا ایک دروازہ ہے۔

ایک اور حدیث میں آپؐ نے خالہ کے بارے میں بتایا: ’’یہ ماں کے قائم مقام ہے‘‘۔ (متفق علیہ)

ایک اور جگہ فرمایا: ’’مسکین کو خیرات دینا صدقہ ہے، اور رشتہ دار کو دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی‘‘۔ (سنن النسائی، ابن ماجہ و الترمذی، حدیث حسن)

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ نے بیان کیا کہ ان کی مشرکہ والدہ ان سے ملنے آئیں اور وہ ان سے کچھ مال چاہتی تھیں، تو میں نے رسول اللہؐ سے پوچھا، کیا میں ان سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۹۷۸؛سنن ابی داؤد، احمد)

اضافہء عمر

حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں: جو اپنے رب سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے تو اس کی عمر میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اس کا مال کثیر اور اس کے اہل میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے۔

کعب بن احبار فرماتے ہیں: قسم اس ذات کی کہ جس نے موسی ؑاور بنی اسرائیل کے لئے سمندر پھاڑا، تورات میں یہ لکھا ہوا ہے: اپنے رب سے ڈر، اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کر، تیری عمر دراز ہو گی، تیرا معاملہ آسان ہو گااور تیری مشکل ٹل جائے گی۔

آپؐ کا ارشاد ہے: ’’صلہ رحمی کرو اگرچہ سلام کے ساتھ ہو‘‘۔ (مجمع الزوائد ۸۔۱۵۲)

قطع رحمی کو بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے اور امام قرطبیؒ اور قاضی عیاضؒ کا س پر اجماع ہے، اگرچہ صلہ رحمی کی تفصیلات میں ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔اور یہ صلہ رحمی کرنے والے اور اس کے متعلقین کے حالات کے حوالے سے ہے، ممکن ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا تنگ دست ہو، یا وہ جن سے صلہ رحمی کرنا چاہتا ہے وہ خوش حال ہوں اور انہیں اس کے مال کی حاجت نہ ہو، تو ایسی صورت میں ان سے رابطہ رکھنے اور انہیں سلام کرنے اور ان سے ملاقات کرنے اور خدمت اور خیرخواہی ہی کو صلہ رحمی شمار کیا جائے گا۔ اور اگر مالدار کے ذو الارحام تنگ دست ہیں تو اسے ان کی مالی مدد بھی کرنی ہو گی۔

عرش کے سائے تلے

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں: تین قسم کے لوگ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے:

۱۔ صلہ رحمی کرنے والا، اس کی عمر بھی لمبی کر دی جاتی ہے، اور رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے۔

۲۔وہ عورت کہ جس کا شوہر یتیم بچے چھوڑ کر مر جائے، پھر وہ ان کی پرورش کرتے کرتے انہیں مالداری تک پہنچا دے یا وہ مر جائیں۔

۳۔ وہ شخص جو یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلائے۔

حضرت حسنؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: دو قدم ایسے ہیں جن کے چلنے سے اللہ خوش ہوتا ہے:۱۔ فرض نماز کی طرف، ۲۔ قریبی رشتہ دار کی کی طرف۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین صفات ایسی ہیں وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ اس سے آسان حساب لے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔صحابہ اکرامؓ نے پوچھا: کن (صفات والوں) کو؟ آپؐ نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے اسے عطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کر، اور جو تجھ سے( رشتہ داری اور تعلق) توڑے، تو اس سے جوڑ۔ صحابیؓ نے پوچھا: اگر میں ایسا کرو تو مجھے کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: تجھ سے آسان حساب لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا‘‘۔ (مستدرک علی صحیحین، ۳۸۴۲)

حضرت عمروبن شعیب ؒ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، اور شکایت کی کہ میرے کچھ قریبی رشتہ دار ہیںجو میرے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں، میں معاف کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ میں ان سے حسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بد خوئی کرتے ہیں، کیا میں انہیں اس کا بدلہ دوں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ تب تو تم سب ایک سے ہو جاؤ گے، لیکن فضیلت حاصل کر اور صلہ رحمی کر، اللہ کی جانب سے تیرا ہمیشہ مدد گار مقرر رہے گا جب تک تو اسی حالت پر رہے گا‘‘۔ (رواہ مسلم، ۲۵۵۸)

خدا اور رحم کا واسطہ ہمیشہ سے باہمی تعاون اور ہمدردی کا محرک رہا ہے۔ انسان عمومی طور پر مشکل وقت میں انہیں دو چیزوں کے ذریعے لوگوں کے دل نرم کرتے کرتے ہیں۔کیونکہ یہ فطری پکار ہے اور عموماً موثر بھی ثابت ہوتی ہے، لیکن یہ تعلق دوطرفہ ہے۔ یہ نہیں کہ ایک فریق ضرورت کے وقت اسی پکار پر لوگوں کے دل پگھلائے ، لیکن جب کوئی دوسرا اسے پکارے تو وہ اللہ اور رحم کے تعلق کی پرواہ نہ کرے۔ ایسے شخص کو امین احسن اصلاحی خدا سے دھوکا بازی اور رحم سے بے وفائی کا مجرم قرار دیتے ہیں، اور اس جرم کا ارتکاب وہی کر سکتا ہے جس کا دل اللہ کے تقوی سے خالی ہے۔حق طلبی اور حق شناسی کا توازن یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور رحم کا نام لیکردوسروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، وہ ان کے نام پرطلب کرنے پران کی ذمہ داریاں بھی اٹھائیں۔اور یہی اسلامی معاشرے کا اصلی جمال ہے۔

اللہ تعالی لوگوں کو خدا خوفی کی دعوت دیتے ہیں، اللہ کی وہ خشیت جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں، کہ وہ باہم تعلقات میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں۔یعنی آپس کے روابط، تعلقات، رشتہ داریوں اور باہمی معاملات میں خدا خوفی کا طرزِ عمل اختیار کرو۔ ان تعلقات کے بارے میں اپنے احساس کو تیز کرو، ان کے حقوق کا احساس کرو، ان میں ظلم سے بچو۔ ان کو چھونے اور خراش لگانے سے بچو۔ رشتہ میں اذیت نہ دو، رشتہ داروں کے جزبات مجروح نہ کرو، نہ ان کے حقوق تلف کرو۔ رشتہ کو محبت دو اور رشتہ کے سائے میں رہو۔اختتام اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر النساء)

صلہ رحمی رسول اللہ ؐ کی تعلیمات کا بنیادی حصّہ تھیں، جب آپﷺ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے پر گھبرا گئے اور غارِ حرا کا واقعہ حضرت خدیجہ ؓ کو بیان کیا تو آپؓ نے جن اوصاف کا ذکر کر کے کہا کہ اللہ آپؐ کو ضائع نہ کرے گا، ان میں صلہ رحمی کا بھی ذکر تھا۔ اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ نے ھرقل کو دعوتِ اسلام قبول کرنے کے لئے خط لکھا تو اس نے تجارتی قافلے کے ہمراہ آنے والے ابوسفیان کو اپنے دربار میں بلا لیا اور اس سے نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے بارے میں سوال کیا، کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ یعنی النبی ؐ۔ تو اس نے کہا: وہ ہمیں نماز ، اور صدقہ کرنے، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۹۸۰)

رسول اللہ ؐ نے جب دعوت ِ دین کی تبلیغ کی تو اس کی ابتدا بھی اپنے کنبے سے کی، قرآنِ کریم میں آپ کو حکم دیا گیا:

’’اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ‘‘۔ (الشعراء، ۲۱۴)

معتبر روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف کہہ دیا کہ ’’اے بنی عبد المطلب! اے عباس! اے صفیّہ رسول اللہ کی پھوپھی! اے فاطمہ محمدؐ کی بیٹی! تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کر لو، میں خدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو‘‘۔ (رواہ البخاری، ۲۷۵۳) قرابت داروں کو نصیحت صلہ رحمی کا بدرجہ اولی حق ہے۔

رسول اللہ ؐ نے جب صفا کے بلند مقام سے تمام قرابت دار قبائل کو نام بنام پکارا تو انہیں ان الفاظ میں نصیحت کی: ’’اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے قبل تم کو خبر دار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکارو گے: ’’یا محمد!‘‘ مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا تمہارا خون (رحم) کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا‘‘۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد ، ترمذی، نسائی)

اللہ تعالی کے دین کے داعیوں کو بھی نصیحت کرتے ہوئے اس ترتیب کو پیش ِ نظر رکھنا چاہیے، کہ سب سے پہلے خود اس دین کی نصیحت پر کان دھرے اور پھر اپنے قریبی لوگوں کو یہ ڈراوا دے، کیونکہ جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لئے نافع ہے۔ اور یہ دعوت کا اخلاص بھی ہے۔ اور اگر رشتہ دار اس دعوت کو قبول کر لیں تو ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت اور تواضع کا رویہ اختیار کرو اور جو نہ مانیں ان سے اعلانِ برأت کر دو۔ انہیں خبر دار کر دو کہ تم ان سے بری الذّمّہ ہو۔

رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس کا عمل اسے پیچھے (سست) کر دے ، اس کا نسب اسے آگے نہیں کر سکتا‘‘۔(رواہ مسلم)

رسول اللہ ؐ کا سگا چچا ابو لھب اتنے قریبی تعلق کے باوجود عزت کی منزلت نہ پا سکا، اور اس پر انتہائی سخت الفاظ میں لعنت کی گئی اور رحم کا رشتہ بھی اس کے کام نہ آیا۔

قرآن ِ کریم میں کم از کم نو (۹) مقامات پر قرابت داروں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔پوری امت ِ مسلمہ صلہ رحمی کی اہمیت پر متفق ہے، اور ہر معاشرے میں قطع رحمی کو برائی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ رحم کا تعلق فرش سے نہیں بلکہ عرش سے ہے، رحم کے رشتے بھی اسی نے بنائے اور ان کو اپنی صفت ِ رحمان سے منسلک کیا، اوران میں باہم محبت قائم کی۔ صلہ رحمی سے دنیا میں خیر و برکت ملتی ہے، اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ اہم سوال ہے۔

٭٭٭

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

8 تبصرے

  1. I have been struggling with this lately, and your post really helped
    put things into perspective for me. Thank you for sharing the wisdom of yours.

جواب چھوڑ دیں