کیوں نہ ہو جان و دل فداء۔

2020 ایک بہت ہی مشکل سال کے طور پہ سامنے آیا ہے۔
آزمائشیں ۔ مصائب ۔ چیلنجز….
تواتر کے ساتھ یکے بعد دیگرے چلے آ رہے ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لگ رہے
انہی مصائب اور مشکلات کے تسلسل میں جماعت اسلامی کراچی کے کسی جلوس میں بم دہماکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے.
جماعت اسلامی کی یکجہتی کشمیر ریلی میں 30 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے ۔ جن میں سے ایک ساتھی رفیق تنولی بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے.
کئی ایک ساتھی ایسے بھی تھے جو معمولی زخمی تھے مگر انہوں نے کسی ہسپتال جانا مناسب نہیں جانا۔ چھوٹی موٹی ڈریسنگ کے بعد گھر کو چلے گئے ۔ انکا نام اس فہرست میں شامل ہی نہیں.
اس پورے سانحہ میں جماعت اسلامی کی اجتماعیت کے خیر اور منظم ہونے کا پہلو مزید نکھر کر اور ابھر کر سامنے آیا۔
* بم حملے کے بعد شرکاء ریلی میں کوئی افراتفری ۔ پینک اور ہیجان سامنے نہیں آیا۔
* کوئی چیخ و پکار یا آہ و بکا کا منظر نہیں دکھا
* کارکنان میں سے کوئی بھی جائے موقع سے فرار نہیں ہوا۔ سب ثابت قدم رہے۔ زخمی ساتھیوں کی مدد میں اور ہسپتال لے جانے میں مصروف ہوگئے
* تمام وہ کارکنان جن کےپاس گاڑیاں تھیں فوراً آگے بڑھے اور زخمی ساتھیوں کو لیکر قریبی ہسپتالوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں کوئی ایمبولینس اس وقت موجود نہیں تھی.
* پوری قیادت کارکنان کے درمیان موجود رہی۔ زمہ داران کو ہسپتالوں کی طرف روانہ کیا ۔ پروگرام کو منظم اور پرامن رکھا ۔ ریلی کو آگے کی طرف لیکر آگے بڑھے.
* محاورتاً نہیں حقیقتاً ردعمل میں ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا
* دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی پولیس یا رینجر والا جماعت کی قیادت کو اپنے حصار میں لینے کیلئے آگے نہیں آیا (یہ کام ایجنسیوں کے SOPs میں شامل ہیں)
* ایک ایک کارکن کی خبرگیری کیلئے قیادت پہنچی۔ تمام ہسپتالوں کا دورہ کیا ۔ ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس ۔ پھر رات 12 بجے تک مختلف پروگرامز میں شرکت ۔ ادارے میں قانونی کاروائی پہ مشاورت اور پھر رات گئے ہسپتالوں میں لیڈرشپ کے زعم میں نہیں بلکہ کارکنیت کے احساس کے ساتھ موجود رہی.
* آغاخان اور لیاقت نیشنل ہسپتال کے ڈاکٹرز کے ساتھ تسلسل سے رابطہ۔ زخمیوں کے نام بہ نام صورتحال سے اپ ڈیٹ ہو رہے تھے
* دو نہایت شدید زخمی کارکنان ۔ عبدالاحد اور رفیق تنولی بھائی کے حوالے سے شدید مغموم
* کسی زخمی کارکن کے کسی اہل خانہ نے دستیاب انتظامات سے عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ نہ کوئی مطالبہ کیا
* مختلف اضلاع کے امراء ہسپتالوں میں کارکنوں کے ساتھ موجود
* کارکنان کا حال یہ کہ جو زخمی تھے وہ دوسروں کیلئے فکرمند، کسی اور زخمی کی مدد کیلئے مستعد، کوئی خونی لال لباس میں تکبیر کے نعروں میں مست
* باقی کارکنان جوق در جوق ہسپتالوں کا رخ کر رہے تھے
* ہرہر کارکن جانے اور انجانے ساتھی کیلئے پریشان
* خواتین نظم اپنے بھائیوں کیلئے فکرمند ۔ مغموم اور دعاءگو
* جماعت اسلامی یوتھ کے نوجوان ہسپتالوں میں خون دینے کیلئے تیار
* واٹس ایپ ۔ فیس بک پہ ایک دوسرے کی خبرگیری اور دعاوں میں مصروف
یہ ہے جماعت اسلامی کی اجتماعیت کا
اصل رنگ
اصل روپ
اصل چہرہ
یہ وہ روپ ہے
یہ وہ لیلی ہے
جس سے پیار ہی نہیں ۔
عشق ہو جائے۔
ایسے میں جتنا سوچتا ہوں شکرگزاری کی وہ کیفیت طاری ہوتی ہے کہ
آنکھ سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی ہے
دل و دماغ ۔ دونوں پکار اٹھتے ہیں کہ
صد شکر کہ ہم جماعت اسلامی میں ہیں
صد شکر کہ ہم اس اجتماعیت میں ہیں
اللہ اکبر کبیرہ
والحمدللہ کثیرہ
سبحان اللہ و بکرہ اصیلا
لاالہ الا اللہ

جواب چھوڑ دیں