کاش کراچی اپنے محسنوں کو پہچان لے‎

شدید حبس اور جھلسا دینے والی گرمی کے بعد انسان بے ساختہ آسمان کی طرف نظریں اٹھاتا ہے اور کبھی زیر لب تو کبھی بآواز بلند رب کریم سے بارش کا طلبگار ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی کا موسم بھی بارش کا متقاضی تھا اور پھر خیر سے جمعے اور ہفتے کو بارش ہوئی لیکن اس شہر کی نااہل انتظامیہ کی بدولت ماضی کی طرح بارش کا یہ سلسلہ بھی خوشی و شادمانی کے فطری احساس سے خالی ہے کہ آدھا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہے تو آدھا شہر پانی میں۔

کراچی میں جب بھی بادل دل کھل کر برستے ہیں ، یہاں کی انتظامیہ کی نالائقی اور غفلت کھل کر عیاں ہوتی ہے، آبادی میں موجود تنگ گلیاں ہوں یا مرکزی شاہراہیں ہر طرف بارش کے پانی میں سیورج کا گندہ پانی اور کوڑے کچرے کے ڈھیر مل کر گندی جھیلوں کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر بھی ہے، اس کو بجا طور پر منی پاکستان کہا جاسکتا ہے لیکن ہم پر مسلط حکمرانوں نے اس شہر کے مسائل حل کرنے اور اس کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں ہمیشہ غفلت برتی ہے، جس کی وجہ سے بارش کے بعد مرکزی شاہراہوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے اور آبادیوں کی آبادیاں پانی میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت، مرکزی حکومت اور خود شہر کراچی کی بلدیاتی حکومت میں سے کوئی بھی اس بدترین صورتحال کی ذمے داری لینے اور اس کے سدھار کے لیے پرعزم دکھائی نہیں دیتا، ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سندھ میں موجود پیپلز پارٹی کی حکومت اگر صوبے کے سب سے بڑے شہر کو بارش کی چند بوندوں میں ڈوبنے سے نہیں بچا پارہی تو کراچی کی بلدیاتی حکومت جو اس ایم کیو ایم کے پاس ہے جس کی سیاست کا محور ہی کراچی رہا ہے ، اس نے بھی گویا کوئی عملی قدم نہ اٹھانے کی قسم کھائی ہے ، مرکز کی حکومت تو شاید کراچی کو بنگال سمجھ بیٹھی ہے ورنہ کراچی میں اپنے ایم این ایز کے علاوہ مرکز میں اپنی اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر شہر کراچی کی بہبود کے لیے کچھ تو کرتی۔

بارش کے بعد کراچی کا پانی میں ڈوبے رہنا کوئی نئی بات نہیں ، یہ ہر سال کی کہانی ہے ، آج کے جدید دور میں قبل از وقت نہ صرف بارش کے ہونے کی اطلاع موصول ہوجاتی ہے بلکہ اس کی شدت کا اندازہ بھی قبل از وقت لگا لیا جاتا ہے لیکن افسوسناک امر ہے کہ نہ تو نالوں کی صفائی کا بروقت مناسب انتظام ہوپاتا ہے اور نہ ہی نکاسی آب کے لیے کسی متبادل کیا جاتا ہے۔

کراچی کے مکین بارش کے بعد پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال کے بعد نعمت اللہ خان اور اس کی ٹیم کی کارکردگی کو حسرت سے یاد کرتے ہیں ، آہیں بھرتے ہیں اور حکمرانوں کو کوستے ہیں لیکن اس بات کا تہیہ نہیں کرپاتے کہ آئندہ شہر کا اختیار ان ہاتھوں میں سونپا جائے گا جو اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، شہر کراچی کے ہر مسئلے کے حل کے لیے شب روز مصروف عمل رہتے ہیں، جن کے دامن پر کرپشن کا داغ نہیں اور جن کے دلوں میں اپنے عوام کا درد اتنا زیادہ ہے کہ ان کا اکیلا ایم این اے عوامی پریس کانفرنس کرکے پوری حکومت کو للکار بیٹھتا ہے کہ اگر میرے علاقے کے مذکورہ مسائل حل نہیں کیے تو میں اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ نکل کر تمھاری پوری حکومت کو دھڑام سے گرا دوں گا۔

ہمیں ایسے ہی رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اپنے حلقوں کے مسائل سے آگاہ ہوں ، اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوں، ان کا درد محسوس کرتے ہوں اور جب محسوس کریں کہ حکمران ٹولہ شرافت کی زبان پر کان نہیں دھر رہا تو عوامی تائید کے ساتھ حکمرانوں کے خلاف صف آراء ہونے کے لیے پر عزم رہیں۔

اللہ کرے کہ شہر کراچی کے مسائل کے مارے عوام اپنے محسنوں کو پہچانیں اور اقتدار و اختیار کے منصب پر عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ کے جانشینوں کو بٹھائیں تا کہ اس شہر کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔

جواب چھوڑ دیں