قربانی کا فلسفہ‎

صبح سے موسم خوبصورت ہلکی ہلکی بوندا باندی ہوا بھی ٹھنڈی ٹھنڈی۔ بھینی بھینی پھولوں کی خشبو سے معطر فضا۔ آنے والا مہینہ بھی تو اگست کا تھا۔ میرے اپنے ملک پاکستان کے معرض وجود میں آنےکا مہینہ اسلام کے نام پر ایک خطۂ زمین حاصل کئے جانے کا مہینہ مسلمانوں کے نظریات کو پروان چڑھانے کا مہینہ۔ مسلمانوں کو اپنے حقوق اور فراٸض سمجھانے کا مہینہ۔ پوری مخالف دنیا کے سامنے اپنے حق کی آوازبلند کرنے کا مہینہ۔ دو قومی نظریہ منوا کر اپنا حق حاصل کرنے کا مہینہ (اپنی جائدادوں، اپنے سرمایہ اپنے سرمایہ اپنے کھیتوں کھلیانوں کوچھوڑکر) صرف مسلم ہونے کے ناطے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا مہینہ۔ بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے کم مائیگی کے باوجود ڈٹ کے کھڑے ہو جانے کا مہینہ۔ جسم چاہے بیمار رہو۔ کمزور ہو لاغر ہو اپنی بات کو بہ بانگ دہل کہہ جانے کا مہینہ۔ یہ ساری باتیں تو قربانیاں چاہتی ہیں جانوں کی قربانیاں، مالوں کی قربانیاں، احساسات و جذبات کی قربانیاں، رشتوں ناطوں کی قربانیاں، کھیتوں کھلیانوں کی قربانیاں، اپنی جائدادوں کی قربانیاں، عہدوں اور عزتوں کی قربانیاں،شہرت و ناموس کی قربانیاں،دنیا کی زندگی پر آخرت کو فوقیت دینےکی قربانیاں،اپنے لعل و گوہر اس مٹی پر لٹادینے کی قربانیاں،اپنےاصل کو چھوڑکرصرف کلمے پر اکٹھا ہونے کی قربانیاں،اپنےکل کے لئے اپنے آج کی قربانیاں صرف ایک دو نہیں۔سینکڑوں ہزاروں افراد اس قربانی کی نذر ہوگئے۔ اور دیکھیں پھر ماہ اگست اور ذی الحج ایک ہی ساتھ آگئے۔ قربانیاں تو صرف اس وطن کو نہیں پیش کی گئیں بلکہ ہر شے قربانی مانگتی ہے۔ یہ قربانی ہی وہ جذبہ ہے جو انسان سے بہت کچھ کروا لیتا ہے۔وہ انسان کو نہتاہوکر بھی فرعون وقت نمرود کی آگ میں بے خطر کودنے پر مجبور کردیتاہے۔

بے خطر کود پڑاآتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب وبام ابھی

یہی سوچتے سوچتے ہر سال کی طرح  پاکستانی قوم کی جشن آزادی کی تیاریاں اور اسپر ہونے والے اخراجات کے بارے میں ذہن کہیں آگے نکل گیا۔  پاکستان کے سبز ہلالی  پرچم مختلف سائز کے پرچموں سے بھرے ہوئے اسٹالز نہ صرف پرچم، جھنڈیاں بلکہ جیولری پرچم کی گھڑیاں، ہاتھوں کے باندھنے والے بینڈز، بریسلیٹس، بندے، سروں میں لگانے والے ہیر بینڈز، انگھوٹھیاں، ٹوپیاں، مفلر، دوپٹّے، اسکارف، سوٹ، جرسیاں۔ غرض یہ کہ جس چیز کا تصور کرو وہ سبز ہلالی پرچم میں موجود ہے۔جشن آزادی گزر جانے کے بعد جب اخراجات کا تخمیہ لگایاجاتاہےتو پتہ چلتاہے کہ ہر سال کی طرح گذشتہ سال بھی پاکستانی عوام نے کروڑوں روپے اس وطن کی محبت میں اڑادیئے۔

کیا یہ ملک صرف سبز ہلالی پرچم اوڑھنے لپیٹنے، لہرانے کیلئے حاصل کیا گیا تھا یا اسکو حاصل کرنے کا مقصد کچھ اور بھی تھا۔ کیا ایک دن شور شرابہ کر لینے سے مقصد پورا ہورہا ہے؟

کیا باجے بجانے، گانے سننے، ترانے گنگنانا لینے سے پاکستان بنائے جانے کا مقصد پورا ہورہا ہے؟

یا اس ملک کو حاصل کرنے کا اس کے سواء بھی کوئی مقصد تھا۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ وطن کی محبت انزان کو عزیز ہوتی ہے۔

لیکن کیاقائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا خواب و کوششیں اس طرح کی خوشیاں منانے کے لئے تھیں۔نہیں بلکہ یہ سب اس دو قومی نظرئے کیلئے تھیں جسکی وجہ سے یہ خطہ ارضی اسلام کےنام پر بنی مدینہ کے بعد دوسری ریاست وجود میں آئی۔ مسلمان ایک الگ قوم ہندو ایک الگ قوم ان دونوں کے عقائد، نظریات، رہن سہن، مذہب، شادی بیاہ ہر چیز کا طریقہ الگ۔ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ الگ خطئہ زمین حاصل کیا جائے جس میں نظام تعلیم، سیاست، نظام معیشت،معاشرت،رہن سہن،دین و مذہب، رسوم و رواج سب الگ ہوں۔ جس جگہ اسلام کا نظام نافذ ہو ہر مسلمان کو مسلمان رہنے دیا جائے اور اسلامی طرز پر زندگی گزارنا آسان ہوجائے، جہاں مسلم حکمران کی حکومت ہو۔ جہاں کی عدلیہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرتی ہو۔ جہاں چوروں ڈاکوؤں کو آزادی نہ ہو، جہاں غریب غریب سے غریب تر اور امیر اپنے محلوں میں سونے کے بستروں پہ سونے والے نہ ہوں۔ جہاں امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہو، جہاں چوہدری وڈیرے اور ہاری کسانوں کیلئے یکساں حقوق ہوں، جہاں ڈاکٹر، وکیل،قانون دان،انصاف دینے والے،چوھدی،زمین دار،کسان،مزدور،چوکیدار،سرحدوں کے محافظ،پروفیسر،ذرائع ابلاغ کے رہنماء،استاداور طالبعلم سب اپنے فرائض سے آگاہ ہوں اور ان پرسختی سے عمل پیرا ہوں۔

جہاں اسلام کا قانون نافذ ہو تو پہاڑ دریازمین درخت کھیت کھلیان باغات ندی نالےآسمان زمین سب خزانے اگلنے لگیں۔ یہ خطئہ زمین جو جنت نظیر ہے، جہاں پہاڑوں بلندی، دریا کی روانی، میدانوں کی وسعت، سمندر کا جوش، باران کا حسن، جنگلات کا گھناپن، جہاں زمینوں کی زرخیزی، معدنیات گیس، ہوا، میٹھا و شولہ پانی سب ہی کچھ موجود ہے۔ الله کی دی ہوئی اس نعمت میں چاروں موسم بھی موجود، شمالی علاقہ جات میں برفانی پہاڑ، ٹھنڈ گرمی کا موسم، برسات کا موسم، گرمی کی شدت، بہار کی رونقیں، خزاں ہر طرح کا موسم اس خطئہ زمین میں موجودہے۔

میرا پیارا وطن دشمنوں کے ہر طرح کے خدشات میں گھرا ہوا۔ اندرونی دشمن، بیرونی دشمن، سرحدوں پہ گھاٹ لگائے دشمن میرے پیارے کی میرا رب حفاظت فرمائے۔ اس مملکت خداداد کے بیرونی دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب تک کہ اندرونی دشمن طاقتور نہ ہو۔ اندرونی دشمن کبھی قومیت کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے، کبھی لسانی فسادات، کبھی گروہی جھگڑے، کبھی مذہبی فسادات، کبھی فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر لوگوں کے املاک کا نقصان، کبھی صوبائی عصبیت کے نام پر لوگوں میں تفریق، کبھی مسلک کے نام پر لوگوں کے جذبات کی توہین کرتے ہیں۔تو کبھی مذہب کا مذاقاڑاتے ہیں۔

میرے ملک کو اندرونی دشمنوں ے مایوسیوں میں گھیرا ہواہے۔کہیں یہ اس ملک کو لوڈشیڈنگ سے تنگ کرتے ہیں، کبھی بے روزگاری سے، کبھی پانی کی تنگی سے، توکبھی کوڑے کا ڈھیرلگاکر، کہیں بھکاریوں کے ٹولےہیں۔ کہیں روڈ ٹوٹے ہوئےہیں۔کہیں سڑکوں پر ٹریفک کا سیلاب ہے۔کہیں پارک اجڑے ہوئےہیں۔ کہیں پارک اور اسپتالوں کی زمین پر بنے ہوئے فلیٹ ہیں،توکہیں اقرباء پروری،رشوت ستانی،نفسانفسی،بے راہ روی،لاقانونیت اور ظلم ہے

تو کیا یہ سب کچھ دیکھ کر ہم مایوس ہوجائیں؟نہیں ہرگز نہیں! کیا یہ ملک اس لئے حاصل کیا تھا کہ سب مل کر اس کو لوٹیں، کوئی بینک بیلنس بڑھائے، کوئی جائدادوں میں اضافہ کرے، کوئی بیرونی ملک اپنے اثاثوں میں اضافہ کرے، کوئی غریب کا خون پسینہ نچوڑ کر اپنے اولادوں کی شادیوں میں لگادے،کوئی کروڑوں کی گاڑیاں خریدے اور اثاثے ظاہر کرتے وقت لاکھ دو لاکھ کی ظاہر کرے،کوئی بیوی بچوں کے نام اپنے پورے رقبے لکھوا لے، کوئی بلوچستان کے پورے معدنی ذخائر سے لبریزپہاڑ امریکیوں کی ملکیت میں دے دے،کوئئ اپنے ہوئی اڈے غیرملکیوں کے حوالے کردے، کوئی پورا ملک غیروں کو گروی رکھوادے۔

آج بھی کوئی تو ہوگا جو محمد علی جناح جیسا قائد اٹھے گا ایک چائے کی پیالی بھی سرکاری خزانے سے نہیں پیئے، کوئی تو ہوگا جو لیاقت علی خان جیسا نواب ہوگا اپنا گھر بھی سفارتخانے کے حوالے کر دے اور پھٹی ہوئی بنیان پہن کر بھی قوم کا قائد ہو،کوئی تو ہوگا جو اس ملک کے بچوں کو اپنے بچے سمجھے گا،کوئی ایسا بھی تو ہوگاکہ وہ اپنی قوم کی لوٹی ہوئی دولت و جائیدادیں بیرون ملک ،ملک دشمنوں کے حلق سے نکلوالےگا-

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جسکو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

 عید قربان ہے۔عشق قربانی مانگتا ہے۔عید قربان دراصل ہم سنت ابراہیمی کی یادمیں مناتے ہیں ۔اور جماعت اسلامی نے اپنے ہیرے اپنے لعل اپنی صلاحیتیں  اپنے علماء ومشايخ اپنے سب سے بہترین لوگ ہر دور میں اپنے رب کی راه میں قربان کرکےسنت ابراہیمی کوہردورمیں زندہ رکها  ہے اوران شاء اللہ تاحیات زندہ رکھے گا ان شاء اللہ۔جماعت اسلامی ہی وہ واحد حل ہے جو عافیہ صدیقی جیسی بے گناہ کو واپس پاکستان لا سکتی ہے۔جماعت اسلامی ہی میں اسلام کی بدولت وہ قوت موجود ہے جو وقت کے فرعون کے آگے کھڑی ہوکر کلمہ حق بلند کرسکے۔جماعت اسلامی پی وہ واحد حل ہے جو نمرود وقت کی آگ میں کود کر دنیا کو آگ کے گل و گلزار ہونے کا منظر دکھاسکے۔

پهر   آگ  ہے   اولاد  ابراہیم   ہے  نمرود   ہے

شاید کسی کو پهرکسی  کاامتحاں مقصود ہے

کودے  گا جو اس آگ  میں وہ کامران   ہوجائے

اسلام    غالب  آئے گا ،اسلام    غالب   آئے

آپ یقین جانیئے جماعت اسلامی ہی واحد حل ہے۔یہی وہ جماعت ہےکہ جس نے نعمت اللہ خان اور منور حسن جیسے لعل و گوہر پیدا کیئے جو کہ بڑے عہدوں پر پہنچ کر بھی عوام کے ٹیکسوں سے اپنا جائز حق لینابھی گوارا نہ کرے۔یہ جماعت اسلامی ہی ہے جس نے سراج الحق جیسا بےباک اور مخلص لیڈر ہمیں عطاکیا جو سرحد کا وزیر خزانہ ہوتے ہوئے بھی اپنے دوکمروں کے گھر سے آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ یہ خدا خوفی یہ آخرت کی جواب طلبی یہ لوگوں سے محبت یہ اسلام پسندی یہ بھائی چارگی یہ عالمگیریت صرف جماعت اسلامی کا ہی خاصہ ہے۔کیونکہ جماعت اسلامی اسلام کے منشور کو لیکر اٹھی ہے۔اور یہ دیس خاص اسلام کے نام پر حاصل ہواہے۔اسلام ہی کی کرنوں سے اس دیس کو روشنی ملےگی۔اسلام کی طاقت سے یہ دیس جگمگائے گا۔اسلام ہی کی طاقت سے اس دیس کے رستےو سلگھتے زخم بھرجائیں گے،اسلام ہی کی طاقت سے اس دیس میں لاقانونیت کا خاتمہ ہوگا۔اسلام کی طاقت سے اس دیس کا غریب بچہ بھی اسکول جائے گا۔اسلام کی قوت سے اس ملک سے

اقرباءپروری کو ختم کیاجائےگا۔اسلام کی طاقت سے اس ملک میں دولت کی فراوانی ہوگی۔اسلام کی قوت سے اس ملک کے عوام سکون کا سانس لے سکیں گے۔

اسلام کی بنیاد پہ ملک بناہے

اسلام ہی اس ملک کی بنیاد و بقاء ہے

بنیاد پہ قائم نہ رہےگاتو فناہے

ہم لائیں گے اس ملک میں اسلام کا دستور

اسلام کے دستور سے ہوجائیں گے غم دور

جواب چھوڑ دیں