صلائے’’آم‘‘ہے یارانِ۔۔۔۔۔۔

مسئلہ فیثا غورث کی طرح میرے لئے یہ مسئلہ بھی ابھی تک مشکل اور حل طلب ہے بلکہ ایک معمہ ہے کہ آم کھایا جاتا ہے یا چوسا کم چوپا جاتاہے۔ایک دانشور دوست سے دست بستہ ہوا تو بڑے ہی فلسفیانہ انداز میں اس طرح گویا ہوئے کہ آم کھائو گٹھلیاں نہ گنو۔جواب تسلی بخش نہ پا کر تشفی قلب کے لئے محلہ کے پرانے بزرگ شیخ صاحب سے معمہ کے حل کے لئے عرض کیا تو انہوں نے بڑے ہی سیدھے سادھے انداز میں شیخانہ حل بتایا کہ دیکھو بیٹا اگر تو اپنے ’’پلے‘‘ سے خریدا جائے تو کھایا جاتا ہے وگرنہ ’’چوپا جاتا ہے۔مجھے حیران و ششدر دیکھتے ہوئے خود ہی تفصیل بتانے لگے کہ دیکھو بچے جب آپ اپنے گھر سے کھاتے ہو تو بڑی احتیاط سے اور کم کم کھاتے ہو لیکن جب کسی دوست کی شادی پر کھاتے ہو تو کیا حساب رکھتے ہو؟بلکہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ دوست تو اس وقت تک کھاتے رہتے ہیں جب تک معدہ اور آنکھیں بند نہ ہو جائیں۔اسی لئے آم خریدیں ہوں تو کھائے جائیں گے وگرنہ ’’چوپے‘‘جائیں گے۔آئی بات سمجھ میں۔اگر دوستو!آپ کی سمجھ میں بھی بات آجائے تو نکل پڑو ایسے سفر پر جس کا اختتام ملتان میں کسی دوست کے ہاں ہوتا ہو۔کیونکہ میں نے تو اس دن سے یہ فلسفہ پلے باندھ لیا ہے اور جب کبھی بھی مینگو پارٹی ہو تو آم کھاتا نہیں چوپتا ہوں،گھٹلیوں کا حساب دوست احباب لگا لیتے ہیں۔

کہتے ہیں آم اور سیب کے کھانے میں فرق صرف تہذیب کا ہوتا ہے۔آم واحد پھل ہے جسے جس قدر بدتمیز ہو کر کھایا جائے اتنا ہی مزہ آتا ہے۔آم کھانے کے انداز نے تو بڑے بڑوں کے پول کھول دئے ہیں اب آپ چچا غالب کی شائستگی کا ہی اندازہ لگا لیں کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا مرغوب پھل کون سا ہے؟تو کہنے لگے کہ آم ،مگر دو شرطوں پہ۔وہ کون سے سرکار، تو کہنے لگے کہ میٹھا ہو اور ڈھیر سارا ہو۔جب کبھی بھی دوستوں کی طرف سے آم کا ’’چڑھاوا‘‘آتا تو آستین اوپر چڑھا لیتے اور خوب جی بھر کر کھاتے۔اسی لئے غالب آموں کے موسم میں اکثر بدتمیز ہی دکھتے ۔شکر ہے غالب میاں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ملتان میں ہوتے تو صاحبِ دیوان ہونے کی بجائے ’’صاحبِ گلشن آم‘‘ہوتے اور بہت ہی ’’عام‘‘ ہوتے۔حیات غالب کا ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار میاں غالب اپنے دوستوں کے ساتھ گھر کے باہر چبوترے پر تشریف فرما تھے کہ ایک گدھا آم کے چھلکوں کے ڈھیر تک گیا،اسے سونگھا اور چلتا بنا۔دوستوں نے ازراہِ تفنن غالب پہ جملہ کسا کہ دیکھو غالب میاں’’گدھے بھی آم نہیں کھاتے‘‘۔غالب برجستہ بولے کہ ’’جی ہاں واقعی گدھے ہی آم نہیں کھاتے‘‘۔

لو جی بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ،غالب تک تو بات ٹھیک تھی میں نے تو ایک کتاب میں یہ بھی پڑھ رکھا ہے کہ علامہ اقبال کو بھی اس افضل الاثمار یعنی آم سے رغبتِ خاص تھی۔ایک سال حکیم صاحب نے علامہ صاحب کو ہدائت فرمائی کہ آموں سے دُور ہی رہا جائے تو اس میں آپ کی صحت ہے۔مگر جب دیکھا کہ اقبال کا دل آم کے لئے مچل رہا ہے تو ایک دن میں ایک آم کھانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔علامہ صاحب نے فورا علی بخش کوبلا کر بازار بھیجا اور کہا کہ پورا بازار گھوم کر صرف ایک آم لانا ہے۔علی بخش بولا کہ حضور جب ایک ہی آم لانا ہے تو پھر پورا بازار گھومنے کی کیا ضرورت ہے تو اقبال بولے کہ’’ علی بخش آم تو ایک ہی لانا ہے مگر وہ لانا ہے جو سب سے بڑا ہو‘‘۔

آم کو عام ہو کر کھایا جائے تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔اسی لئے آم کو ڈائننگ ٹیبل پر نہیں بلکہ چھت پہ،صحن،باغ،پارک یا ٹیوب ویل پر جا کر کھایا جائے تو حقِ طعامِ آم ادا ہوتا ہے۔میرا ایک ممی ڈیڈی دوست آم بھی چھری کانٹے سے کھاتا تھا۔بس ایک بار اسے زبردستی نہر کنارے لے جا کر کھلے آسمان تلے آم کھلائے ،تب سے اب تک وہ جب بھی آم کھاتا ہے’’کھل کھلا‘‘کے کھاتا ہے۔ایسے ممی ڈیڈی بچوں کے سامنے’’ مینگو اور ایپل‘‘کا تذکرہ کریں تو وہ اسے پھل نہیں بلکہ مہنگابرانڈہی سمجھتے ہیں اور تو اورmangoاورapple کےoutlets کی تفصیل مفت میں فراہم کر دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ مینگو میں اتنی کیلریز ہوتی ہیں کہ اسے کھاتے ہی بندہ man-go ہوجاتا ہے۔ملتان کو سٹی آف مینگو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہاں سب سے زیادہ آم کاشت کئے جاتے ہیں۔ایک بار ملتان سے ایک دوست کا فون آیا کہ آم بھیجے ہیں وصول کر لیجئے گا۔چند روز تک پارسل نہ پا کر جوابا فون کر کے پوچھا کہ میاں ابھی تک آموں کا پارسل نہیں ملا تو فرمانے لگے کہ ’’لنگڑا بھیجا تھا راستے میں لنگڑاتے ہوئے آرہا ہوگا‘‘۔

آم کے درخت کے بارے میں مشہور ہے کہ دادا لگائے اور پوتا کھائے،یعنی اس کا پھل دیر بعد ملتا ہے۔اسی لئے صبر اور آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں بیری ہوگی وہاں پتھر اور جہاں آم ہوں گے وہاں طوطے ضرور آئیں گے۔دوستوں کی انجمن میں وہی سب سے زیادہ آم کھاتا ہے جو طوطا چشم ہو کر کھائے۔اس لئے ساون شروع ہوتے ہی ملتان میں آپ کو یا طوطے ملیں گے یا طوطا چشم۔

تاریخ بتاتی ہے کہ لفظ آم سنسکرت لفظ اَمر سے ماخوذ ہے اور یہ لفظ4000 سال سے موجود ہے۔انگریزوں کے برصغیر آنے سے قبل پرتگالی اس خطہ پر قابض رہے ہیں،پرتگالیوں نے تمل کے لفظ منگائی جس کے معنی آم کے ہیں لے کر اسے منگا بنایا جس سے انگریزی زبان میں یہ مینگو بنا۔لیکن برصغیر میں آم اوربرصغیری گل بدن پرسب سے زیادہ احسان مغل حکمرانوں کا ہے،اسی لئے ان کے محلات میں آم اور پر زادیاں بکثرت پائی جاتی تھیں۔مغلوں کا آم پہ یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے ہی اسے تخم سے قلم میں تبدیل کیا۔ہوا یوں کہ تیمور لنگ نے سب سے پہلے آم کی قلم لگائی جس کی نگہداشت اس کی بیوی’’اولجائی‘‘کیا کرتی تھی ،چنانچہ قلم میں آج بھی تیمور لنگ یا اس کی ایک اور شکل لنگڑا پسندیدہ آموں میں شمار ہوتے ہیں۔آم کی اقسام اور مغل حکمرانوں کی بیویوں کا شمار کرنا خود کو بے شمار کرنے کے مترادف ہے۔اس لئے ان کا تذخرہ کرنے کے لئے ایک اور مضمون درکار ہوگا۔

مینگو ڈپلومیسی میں مشہور ہے کہ آموں کو بطور تحفہ تحائف دینے کی رسم نوبزادہ نصراللہ خان نے شروع کی تھی۔جس کا اختتام ضیا اٗلحق نے کیا۔سنا ہے کہ انہیں آم اتنے پسند تھے کہ دنیا سے جانے والا وہ واحد شخص ہے جو آموں کے ساتھ جہانِ فانی سے رخصت ہوا وگرنہ تو دارا وسکندر تک خالی ہاتھ ہی گئے ہیں۔مگر میرا ناقص علم یہ کہتا ہے کہ جب چین کے دونوں انقلاب greater leap forwardاورcultural revolution ناکام ہوئے تو چین کی سیاسی صورت حال بہت نازک ہو گئی،ایسے میں جب ریڈ گارڈ زاور کسانوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہونے ہی والی تھی کہ اس دوران سفارت خانہ پاکستان نے 1966 میں چیئرمیں مائو کو آم کا تحفہ بھیجا جسے مائو نے اپنے ورکرز میں تقسیم کردیا کیونکہ مائو کو آم پسند نہیں تھے۔ورکرز نے یہ سوچا کہ مائو نے آم تحفہ دے کر یہ سگنل دیا ہے کہ کسان اب اپنی مرضی سے فصل کاشت کر سکتے ہیں۔اسی خوشی میں کسانوں نے آموں کو لے کر پورے شہر میں جلوس نکالے کہ انہیں اب کھیتوں میں کام کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔بلکہ آموں کی تو اس قدر عزت کی گئی کہ ایک شخص نے اسے شکر قندی کہہ دیا تو اسے سزائے موت سنا دی گئی۔

میرے ایک دوست نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آم کے پھولوں کو اگر ہاتھوں میں مسلا جائے تو کیا کرشمہ سرزد ہوتا ہے تو میں نے معصومیت سے جواب دیا کہ کرشمہ کا تو مجھے معلوم نہیں البتہ آم اپنے پھل سے محروم ہو جاتا ہے۔میرے ہلکے پھلکے طنزومزاح کے بعد بھی اگر کوئی ملتانی دوست افضل الاثماریاپھلوں کے بادشاہ کو تحفتاً نہ بھجوائے تو پھر ہم نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ اسے ’’چوپا‘‘نہیں جائے گا بلکہ کھایا جائے گا۔وہ بھی اپنے پلے سے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

11 تبصرے

  1. 903800 891206Hey! Im at work surfing around your blog from my new apple iphone! Just wanted to say I adore reading via your blog and appear forward to all your posts! Maintain up the outstanding work! 788373

  2. 520672 188803My brother suggested I would possibly like this blog. He was once entirely right. This submit truly made my day. You cant believe just how so a lot time I had spent for this data! Thank you! 848550

  3. 455009 200291This sort of wanting to come to a difference in her or his lifestyle, initial normally Los angeles Excess weight weightloss scheme is a large running in as it reached that strive. weight loss 328428

جواب چھوڑ دیں