کرونا کی وبا، تعلیمی دنیا میں نئے امکانات اور چیلنجز(پہلی قسط)۔

رواں سال کے فروری کے  آخری دنوں سے تعلیمی ادارے بند ہیں ۔ اور اب ستمبر کے وسط سے باقاعدہ تعلیمی عمل بحا ل کرنے کا  عندیہ دیا گیا ہے۔۔۔ زیادہ تر نجی اسکولوں نے جون کے آغاز سے ہی آن لائن ایجوکیشن کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔۔  آن لائن اجوکیشن کی مشکلات اور والدین کی طرف سے مسلسل شکایات  کے اندراج کے بعدیہ بیل منڈھتے نظر نہیں آرہی ہے اگر چہ مسقبل قریب میں روایتی نظآم تعلیم کے ساتھ ساتھ آن لائن کا  سلسلہ بھی جاری رہنے کا قوی امکان ہے ۔۔

 متابدل نظام تعلیم میں گھریلو اسکولنگ کا نام بھی  سامنے آیا ہے ۔ امریکہ اور یورپ میں تو یہ نظام پہلے ہی سے مقبول ہے اس نظام کے بارے میں جاننے سے پہلے آن لائن ایجوکیشن  کے اطلاق کی مشکلات  کا جائزہ لیتے ہیں:

ہمارے تجربے سے معلوم ہوا کہ والدین کی اکثریت  موبائل یا انٹرنیٹ کے دوسرے آلات کو تفریحی ، پیغام رسانی اور رابطے کے لیے استعمال کرتی ہے اور تعلیمی مقاصد کے لیے اسے استعمال کرنا بہت اجنبی لگا ، حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہمیں یہ علم ہوا کہ وہ ای میل بنانا اور اسے استعمال کرنا بھی نہیں جانتے تھے۔

بالکل یہ ہی معاملہ اساتذہ کے ساتھ بھی پیش آیا  بالخصوص معمر اساتزہ کے لیے آن لاین ایجوکیشن کے لیے ڈیجیتل آلات اور تعلیمی سہولت کی ایپ کا استعمال انہیں سکھانا جوۓ شیر کے مترادف تھا۔ ۔۔  نوجوان اساتزہ میں سے بھی اکثر نا بلد تھے اور کیمرہ کا سامنا کرنے میں ان میں اعتماد کی بہت کمی تھی۔

والدین اور اساتذہ کی تربیت ایک بہت ہی وقت طلب  اورمشکل مرحلہ تھا۔

ابھی تک اساتذہ گوگل کلاس روم کے مختلف وظائف کے استعمال میں دشواری محسوس کر رہے ہیں، زوم یا کوئ دوسری میٹنگ کی ایپ کو استعما ل کرنا اور دیگر تعلیمی سہولیات کے ساتھ مربوط کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے،

ایسے والدین جن کے بچے مختلف جماعت میں زیر تدریس ہیں اوران کے پاس ایک ہی ڈیوائس ہے۔  وہ ایک ہی وقت میں  کیسےان بچوں کو  آن لاین تعلیم سے مستفیز کرواسکتے ہیں ؟اگر وہ کسی طرح سے ایک سے زیادہ آلات کا انتظام بھی کر دیں تو چھوٹے بچوں کے ساتھ ماں بھی شریک تعلیم ہوتی ہے تو وہ ایک سے زیادہ  بچوں کی بیک وقت رہنمائ اور مدد کیسے کر سکتی ہے؟

پاکستان کی کثیر آبادی کے پاس انٹر نیٹ اور اس سے جڑی ہوئ سہولیات نہیں ہیں۔ وہ بچے کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ انٹر نیٹ  کی اسپیڈ اور موبائل کے سگنلز بھی بہت زیادہ مسئلہ پیدا کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں تو حب سے باہر نکتے ہی سگنلز بند ہو جاتے ہیں  وہاں تو یونی ورسٹی کے طالب علموں نے ان سہولیات کی کمی کی وجہ سے آن لاین اجوکیشن پر سب سے بڑا اعتراض کیا ہے،،

بجلی کی آنکھ مچولی ، علانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ نے آن لائن ایجوکیشن میں بہت زیادہ رکاوٹ پیدا کی ہے۔

چھوٹے بچے جو کاپیوں پر کام کرنا سیکھ رہے ہیں وہ آن لاین اپنا کام کیسے جمع کریں؟

ہمارا امتحانی نطام لکھنے کی مہارت اور رفتار کی آزمایشوں پر مشتمل ہے اگر بڑے بچے  کمپیوٹرٹایپنگ کے ذریعے اپنا کام جمع کرایئں گے تو وہ بورڈ اور اسکول کے تحریری امتحان کیسے دے سکیں گے؟ اور اگر ہم ان کو ایم ایس ورڈ ، ایکسل ، اور سلایڈ کا استعمال کرنے سے روکتے ہیں تو ان پر اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل لٹریسی کے علم اور مہارت کا دروازہ بند کرتے ہیں۔۔

والدین کے اور اساتذہ کےلیے  آن لاین ایجوکیشن کی ضروریات کی خریداری ایک اضافی بوجھ بن گئی ہے۔

اساتذہ کے لیے آن لائن ایجوکیشن کا مطلب 24 گھنٹے کی ملازمت ہو گئی ہے۔ والدین ، طالب علم اور انتطامیہ کسی بھی وقت کوئ سوال اور معلومات کے لیے رابطہ کر تے ہیں  ۔  ان بے چاروں کو تو خواب میں بھی زوم ، گوگل اور واٹس اپ نظر آتے ہیں۔ والدین اپنی فرسٹریشن کا غصہ اسا تذہ پر اتارتے ہیں ۔ والدین اور اساتذہ کے درمیان جو باہمی احترام کا رشتہ تھا اس میں اب ایک بڑی خلیج آگئی ہے  جو آیندہ ہمارے معاشرتی اقدارکے لیے زہر ہلاہل ثابت ہوگی-

آن لائن ایجوکیشن علمی پیاس تو شاید بجھا دے لیکن بچوں کی جسمانی ، ذہنی ، معشرتی اور جذباتی نشونما کا کیا بنے گا؟ تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے اس لیے روایتی نظام تعلیم کو بھی جلد بحال کرنا از حد ضروری ہے-

اس تمام معاملے مین حکومت خاموش تماشائ ہے ۔ اس کا ایندہ کا لائحہ عمل کیا ہے اس سے کو ئ بھی واقف  نہیں ۔ ماسوا اس کے کہ اسکول بند رکھے جایئں گے۔۔ حالانکہ حکومت کے پاس وقت  بھی تھا اور وسائل  بھی تھے کہ وہ ا ن مسائل کے حل کے لیے کچھ کرتی مثلا:

اسکولوں آن لائن ایجوکیشن  کا انفرا اسٹراکچر بناے  کے لیے  تکنیکی  اور مالی مدد فراہم کرتی تاکہ اسکول اس نظام کو سہولت سے چلاتے اور وہ والدین کے لیے اسکولون کی فیس اور دیگر اخراجات  میں آسانی فراہم کرتے۔

آن لاین ایجوکیشن کے لیے درکار ضروری آلات اور سہولیات کی قیمت کو کنٹرول کرتی اور آسان قسطوں میں  یہ فراہم کرتی یا ان کی خریداری کے لیے بلا سودی قرضہ مہیا کرتی۔ جس کا  ایک بڑا فایدہ ملک مین ڈیجیٹل لٹریسی اور ڈیجیٹل الات کی فروخت کی شکل میں سامنے آتا جو بالواسطہ معاشی ترقی کو مہمیز لگاتا۔

اسکول کی تدریسی دورانیے میں بجلی کی لوڈ شیدنگ پر پابندی عائد کرتی۔

امتحانی نظام میںایسی تبدیلیاں تجویز کرتیں جس سے آن لائن ایجوکیشن کا مقصد پورا ہو تا۔

اساتذہ اور والدین کے لیے ڈیجیٹل لٹریسی کے لیے  مختصر دورانیے کےآن لائن سرٹیفیکیٹ کورسز کا انتظام کرتی  ۔

اب جب کہ تقریبا تمام نجی اسکولوں نے آن لائن ایجوکیشن کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اوراس سے والدین، اساتزہ ، طلبہ اور تعلیمی انتظامیہ واقف ہو گئی ہے اور اس کو بوجود  ان گنت مشکلات استعمال بھی کر رہی ہے تو اس کو مستقبل میں بھی روایتی تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ مشترکہ نظام کے طور پر استعمال کرنے کی حوصلہ افزائ کرے۔

 اب بھی وقت ہے سرکار خواب غفلت سے بیدار ہو اور اس وقت کو غنیمت سمجھے اور تعلیمی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

 اب دوسری قسط میں گھریلو اسکولنگ کے بارے میں اپنے تجربات اور معلومات  میں آپ  کو شریک کروں گا ۔ آپ کی تجاویز ،  تنقیدی تبصرے اور راے کا انتظار رہے گا۔

جواب چھوڑ دیں