16 جولائی دنیا کا پہلا ایٹمی دھماکہ

اس بات سے قطع نظر کہ انسان کے خمیر میں خیر کا عنصر زیادہ ہے یا شر اور یہ امن و محبت سے رہنے کا خواہاں ہے یا جنگ و جدل اس کی فطرت ہے،  اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ انسانی ہولناک جنگوں سے بھری ملتی ہے، ایسی تباہ کاریاں اور سیاہ کاریاں ہیں جس کا حاصل شرمندگی، ندامت اور کرب کے سوا کچھ نہیں، ماضی قدیم سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر پچھلے سو سالوں کا جائزہ لیا جائے تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے علاوہ بھی پوری دنیا خوں رنگ نظر آتی ہے لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو جنگی جنون کے حوالے سے ان کی  عالمگیریت کی وجہ سے جنگی تاریخ میں اہمیت حاصل ہے اور اسی نے وقت کے حکمرانوں کو اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے روایتی ہتھیاروں پر اکتفا کرنے کے بجائے ایسے مہلک اور تباہ کن ہتھیار بنانے پر اکسایا جو پل بھر میں شہر کے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنادے۔

پہلی جنگ عظیم مختصر جائزہ:

پہلی جنگ عظیم میں دنیا دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہوئی جس میں ایک فریق برطانیہ، فرانس، سربیا، روس، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاست ہائے متحدہ (امریکہ) تھا تو دوسرا فریق جرمنی، آسٹریا، ہنگری پر مشتمل تھا جن کے ساتھ بعد میں سلطنت عثمانیہ اور بلغاریہ بھی شامل ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم جس میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی کا ظاہری جواز آسٹریا کی طرف سے 28 جون 1914 میں فرانز فرڈینینڈ کے قتل کی پاداش میں سربیا پر چڑھائی کا فیصلہ ہی اس جنگ کا باعث تھا لیکن جرمنی کی غیر مشروط حمایت ثابت کرتی ہے کہ وہ برطانیہ اور فرانس کی طرح نوآبادیاتی ریاستوں کے قیام کا خواہشمند تھا ، یہی وجہ ہے کہ جرمنی نے نہ صرف آسٹریا کی غیر مشرو ط حمایت کا اعلان کیا بلکہ روس اور فرانس کو بھی الٹی میٹیم دینے شروع کر دیے تھے مزید یہ کہ عالمی معاہدوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بیلجئیم پر بھی حملہ آور ہوا جبکہ یہ بات واضح تھی کہ اگر بیلجیئم پر حملہ کیا گیا تو برطانیہ بھی اس جنگ میں کود پڑے گا اور یوں ایک علاقائی تنازعہ براعظمی جنگ میں تبدیل ہوا۔ جنگ کے اختتام پر جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوئی اور ایک طرف اگر جرمنی ہر حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہوا اور سلطنت عثمانیہ بکھرنے لگا تو دوسری جانب پورے یورپ میں بھی غربت نے ڈھیرے ڈال لیے اور بھوک اور وبائی امراض اس وقت ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آئے۔

دوسری جنگ عظیم مختصر جائزہ:

 

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور اس کے بعد پیش آنے والی مشکلات سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ کے لیے جنگوں کی روک تھام کی کوئی مناسب منصوبہ بندی کی جاتی اور ہر فریق اس کی پاسداری کرتا لیکن ہوا اس کے برعکس، پہلی جنگ عظیم کی پاداش میں 1919سے1930 تک انتہائی بدحالی کے شکار جرمنی میں جب اقتدار ہٹلر کے ہاتھ آیا تو ہٹلر نےجرمنی کی قوت از سر نو منظم کی اور 1938 میں جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسڑیا، چیکو سلواکیہ اور پھر پولینڈ پر قابض ہوا۔ جرمنی کے اس جارحانہ رویے نے ایک بار پھر اس عالمی معاہدے کو مذاق بنا دیا جس میں جرمنی عہد کرچکا تھا کہ وہ کسی بھی ملک پر حملہ آور نہیں ہوگا، پولینڈ پر جرمنی کے حملے کے بعد برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کیا اور 1939 میں جنگ عظیم دوئم شروع ہوئی۔

ایک انتہائی تباہ کن ہتھیار کی خواہش:

پہلی جنگ عظیم کے نتائج نے جرمنی کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا تھا، جس پر جرمنی کا ہر فرد دلبرداشتہ تھا، ایسے میں جرمنی جرمنی کے اس وقت کے مشہور اور اہم فزکس کے سائنسدان ہائزن برگ نے اپنے ملک کی برتری کے لیے دنیا کا مہلک ترین ہتھیار ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ سوچ صرف ہائزن برگ کے ذہن میں نہیں آئی بلکہ امریکہ میں فزکس کے ماہر رابرٹ اوپن سائمر بھی کوئی ایسا خطرناک بم بنانے کی کھوج میں تھے جو کسی بھی جنگ میں دشمن پر اتنی تباہی مسلط کرے کہ جنگ کا نتیجہ یقینی فتح کے طور پر سامنے آئے۔ اب ایک طرف ہٹلر کی ایما پر ہائزن برگ ایٹم بم بنانے کے مشن پر کام کرنے لگا تو دوسری طرف البرٹ آئن اسٹائن کی جانب سے امریکی صدر کو توجہ دلانے پر کہ جرمنی ایک ایسا سپر ہتھیار بنانے کے درپے ہے جو سیکنڈز میں پورے شہر کو راکھ کردے گا،  امریکہ میں بھی ایٹم بم بنانے کی ذمے داری رابرٹ اوپن سائمر کو ذمہ داری سونپی گئی۔ 1942ءکے آخری دنوں میں جب ہٹلر کی فوج یورپ پر غالب آرہی تھی، جرمنی اور امریکہ کے درمیان ایٹم بم بنانے کی دوڑ بڑی درحقیقت دنیا بھر کے لیے تباہی اور بربادی کی کوشش تھی۔ دونوں ممالک میں پوری جانفشانی کے ساتھ ایٹم بم بنانے کے مشن پر کام جاری تھا اور سبقت امریکہ لے گیا۔16جولائی 1945ء انسانی تاریخ کا وہ المناک دن ہے جب امریکہ نے نیو میکسیکو میں ایٹم بم کا پہلا کامیاب تجربہ کیا اور انسان اس پر قادر ہوا کہ چند سیکنڈز میں شہر کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے۔

امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کا استعمال:

اب تک دو مرتبہ ایٹم بم کو اپنے مخالفین پر گرایا گیا ہے اور دونوں مرتبہ یہ ظلم امریکہ نے کیا۔ جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بمز جنھیں ‘لٹل بوائے’ اور ‘فٹ مین’ سے منسوب کیا گیا نے دونوں شہروں کو خاکستر کیا، لاکھوں انسان دنیا سے ایسے اوجھل ہوئے گویا کہ کبھی تھے ہی نہیں ہزاروں افراد مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوئے اور صاحبان حال بتاتے ہیں کہ آج بھی وہاں کی زمین پر سبزہ نہیں اگتا۔ انسانی تاریخ میں اس سے بڑی بربریت اس سے پہلے کسی نے نہیں کی جتنی اس وقت کی امریکی حکومت نے انجام دی۔ کہتے ہیں کہ جب ایٹم بم کے مؤجد رابرٹ نے خود اپنے بنائے ہوئے ایٹم بموں سے پھیلنے والی تباہی دیکھی تو وہ رو پڑے اور باقی زندگی ایٹم بم بنانے پر نادم رہے۔ لیکن تقریباً پون صدی عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہمارے اہل دانش اس پر متذبذب ہیں کہ امریکہ کی جانب سے جاپان کے دو شہروں کو نیست و نابود کرنے کا عمل درست تھا یا غلط؟ اکثریت اگر اس کو ظلم و بربریت کی انتہائی شکل قرار دیتی ہے تو کچھ ایسے بھی ہیں جو ان بموں کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کا باعث گردانتے ہیں اور ان دھماکوں کی حمایت کرتے ہیں۔

ایٹمی قوت کے حامل ممالک:

اس وقت دنیا میں امریکہ ، روس، برطانیہ، فرانس، چائنہ، بھارت ، پاکستان ، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا ایٹمی صلاحیت کے حامل ممالک ہیں جبکہ اسرائیل نے کبھی باضابطہ اعلان یا ایٹمی تجربہ تو نہیں کیا لیکن ایک عمومی گمان یہ ہے کہ اسرائیل بھی ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسلام اور ایٹم بم:

اسلام اتنا جامع دین ہے کہ زندگی کے تمام تر معاملات بشمول جنگ کا میدان کے لیے کچھ رہنما اصول وضع کرتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ میں کوئی فرد دشمن کے ساتھ کسی بھی قسم کا رویہ اپنانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسے کچھ ضابطوں کا پابند بناتا ہے ، قرآن مجید کی سورۃ احزاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اس میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایات دی تھیں جن کو تمام مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے۔ وہ ہدایات یہ ہیں:

  1. عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں ۔
  2. مثلہ نہ کیا جائے ۔
  3. راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔
  4. کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔
  5. آبادیاں ویران نہ کی جائیں ۔
  6. جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔
  7. بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔
  8. جو لوگ اطاعت کریں، ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان ومال کا ہے۔
  9. اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔
  10. جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔

اس بات کا فیصلہ تو فقہا اور آئمہ امت ہی کرسکتے ہیں کہ ایٹم بم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے لیکن ان رہنما ہدایات کی روشنی میں ، میں بڈ یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ ایٹم بم کڈی بڑے ، بچے، بوڑھے، خاتون، فصل وغیرہ میں تمیز نہیں کرتا بلکہ ہر شے اور ہر ذی نفس کو بھسم کرکے رکھ دیتا ہے۔

دنیا کی ترجیحات بدلنی ہوں گی:

جنگ نے عام آدمی کو کبھی بھی راحت و خوشحالی نہیں دی بلکہ اس کی مشکلات اور مصائب میں ہی اضافہ کیا ہے، ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں لوگوں کو کھانے کے لیے متوازن غذا اور پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، علاج معالجہ عام فرد کی دسترس سے باہر ہے، بہت ساروں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں، لاتعداد بچے علم کے زیور سے محروم ہیں اور ایسے ہی متعدد بنیادی نوعیت کی ضروریات کا نہ ہونا عام ہے لیکن دنیا بھر کے جنگ پرست حکمرانوں نے جنگوں کو کاروبار بنائے رکھا ہے اور اسلحے کی دوڑ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ کاش کہ کوئی توانا آواز بلند ہو کہ ہمیں جنگی سازو سامان کی نہیں زندہ رہنے کے اسباب کی ضرورت ہے۔

جواب چھوڑ دیں