“کے الیکٹرک سے نجات دو”

کے الیکٹرک یوں تو ایک طویل عرصے سے کراچی کے عوام کے لیے بالعموم جان کے وبال کی سی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ شہری اس ادارے سے نالاں لیکن اسکے خلاف کسی شکایت کی شنوائی کہیں نہ ہونا ایک اور المیہ ہے،کے الیکٹرک کے خلاف متعدد شکایات میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ ادارہ استعمال شدہ بجلی سے زیادہ یونٹس ظاہر کرتے ہوئے ہر مہینے اپنے صارفین سے زیادہ رقم بٹورتا ہے جس کا مجموعی تخمینہ اربوں میں بنتا ہے۔ اس کے علاوہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ، طویل بلیک آوٹس، وولٹیج کی کمی، شکایات کا ازالہ نہ کیا جانا، ہر سال بارشوں میں کرنٹ کی وجہ سے ہلاکتیں، ارتھنگ کے انتظام کا نہ ہونا اور دیگر متعدد ایسی شکایات ہیں جو اہالیان کراچی پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کراچی میں اداروں کی ساکھ کے بارے میں کوئی غیر جانبدار سروے کروایا جائے تو کے الیکٹرک کا نام بدنام ترین ادارے کے طور پر سامنے آئے گا۔

کے الیکٹرک کے خلاف عوامی غم و غصہ راتوں رات فروغ نہیں پایا بلکہ 2005 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کے بعد سے ہی کسی نہ کسی شکل میں عوامی مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے۔ شروع دن سے ہی اس نجکاری کی شفافیت پر ایک سوال اٹھتا رہا ہے بعد ازاں نئی منیجمنٹ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمین کی برطرفی اور ان کے واجبات کی عدم ادائیگی پر بھی احتجاجات ہوتے رہے، شہر کراچی میں موجود تانبے کے بیش قیمت تاروں کو جب ایلومینم سے تبدیل کیا جانے لگا تب بھی عوامی مزاحمت پیدا ہوئی اور ‘کے الیکٹرک، تانبہ چور جیسے نعرے زبان زد عام رہے۔

لیکن عوام میں پریشانی اور تشویش کی شدید لہر کے باوجود طویل عرصے تک صوبائی اور مرکزی حکومت اور متعدد سیاسی جماعتوں کی خاموشی نے پراسراریت کی فضا کو جنم دیا ۔شواہد نہ ہوتے ہوئے بھی عوام کی اکثریت یہ سمجھنے لگی کہ کے الیکٹرک ان سے بٹورنے والے پیسوں سے مختلف پارٹیز کے سر کردہ افراد کو بھی نوازتی ہے، جس کی وجہ ان کے احتجاجات مؤثر ثابت نہیں ہوتے ، اس طرح کے الیکٹرک کارپوریشن سے زیادہ ایک مافیا کے طور پر متعارف ہونے لگی ، اس مافیا کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ بھی رہی کہ یہ میڈیا گروپس کو اشتہارات اور ان کی مد میں ادائیگیوں کو اس سے مشروط کر چکا ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی کسی سرگرمی کو مناسب کوریج نہیں دی جائے گی۔

بہر حال کے الیکٹرک کے ستائے کراچی والوں کو اس وقت ایک شدید جھٹکا لگا جب حال ہی میں مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی زیر صدارت اقتصادی رابط کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس میں کے الیکٹرک کے صارفین کے لیے بجلی 2 روپے 89 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی۔ عوام کی منشا کے خلاف تحریک انصاف کی حکومت کی مرکزی حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک کو نوازا جا رہا ہے تو اسی جماعت کی صوبہ سندھ کی قیادت عین اسی وقت کے الیکٹرک کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر رہی ہے۔

صوبہ سندھ کی اسمبلی میں پیر کو تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے ایک انوکھا احتجاج کیا، ڈاکٹر سیما ضیا اور خرم شیر زماں پلاسٹک کے ایک تھیلے میں چوڑیاں لے کر آئے جو انھوں نے سندھ اسمبلی کے داخلی راستے پر بچھا دیں۔پاکستان تحریک انصاف صوبہ سندھ کی قیادت نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی نجی کمپنی کے الیکٹرک کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا۔خبر ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے خلاف کے الیکٹرک ہیڈ آفس کے سامنے دھرنا جاری ہے اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کا دھرنے سے خطاب میں تانبے کے تاروں کے وزن اور ان کی قیمت فروخت پر سوال اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو تاریں اتاری گئیں، ان کا وزن کتنا تھا وہ کس ریٹ میں بِکیں؟ ایک ایسے وقت میں جب شہر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 14 گھنٹے تک ہوگیا ہے جس کے باعث شدید گرمی کے موسم میں شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے، حکمران جماعت ایک جانب بجلی کے نرخ بڑھانے کی منظوری دے رہی ہے تو دوسری جانب نام نہاد احتجاج اور عدالت جانے کے اعلانات کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سندھ کے اراکین اسمبلی کا اسی نوعیت ایک اور بچگانہ عمل سندھ اسمبلی میں نام نہاد احتجاج کے طور پر یوں دیکھا گیا کہ ڈاکٹر سیما ضیا اور خرم شیر زمان اسٹک کے ایک تھے میں چوڑیاں لے کر آئے اور انھیں سندھ اسمبلی کے داخلی راست پر بچاتے ہوئے کہا کہ ‘یہ چوڑیاں وہ حکومت سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے لے کر آئے ہیں۔واضح رہے کہ ملک بھر میں بجلی کی سپلائی کے تمام اداروں کے لیے قائم کردہ ریگولیٹری ادارہ وفاق کے تابع ہے ۔

ایسے میں اگر وفاق میں حکومت کے مزے لوٹنے والی تحریک انصاف کبھی سبسڈی اور کبھی فی یونٹ نرخ بڑھا کر کے الیکٹرک کو لوٹ مار میں معاونت فراہم کرے گی اور اسی جماعت کی صوبائی قیادت نام نہاد احتجاج کے تماشے رچائے گی تو یہ کہا جانا بجا ہوگا کہ ‘جب حکمران اقدامات کے بجائے احتجاج کرنے لگے تو مان لینا چاہئیے کہ اختیار کی اصل کنجیاں کسی اور کے پاس ہیں اور یہ اسٹیج پر موجود کٹھ پتلیوں کے سوا کچھ نہیں۔ ‘ہمارے حکمران سرمایہ دارانہ اداروں ، بڑی کارپوریشنز اور جوائینٹ وینچرز کے ہاتھوں پتلی تماشہ بنتے رہتے ہیں۔

بہر حال حکمران جماعت اور عوامی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا دیگر تمام پارٹیز کی کے الیکٹرک کے خلاف تمام تر مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی کے باوجود کراچی کے ہر مسئلے کو جانفشانی سے اٹھانے اور اس کے حل کے لیے خود کھپانے والے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بھی کراچی کے باسیوں سے کے الیکٹرک کے خلاف منظم تحریک شروع کرنے اور اس کا لائسنس منسوخ کروانے کے اصولی مؤقف کے ساتھ 11 جولائی کو شاہراہ فیصل پر ایک احتجاجی دھرنے کا اعلان کر دیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ آئندہ کی حکمت عملی دھرنے میں ہی واضح کی جائے گی۔ امید ہے کہ عوامی قوت کے بل بوتے پر کراچی کا یہ بیٹا کے الیکٹرک کے جن کو کسی بوتل میں بند کرکے ہی دم لے گا۔

جواب چھوڑ دیں