کتاب کی موت

انسانی زندگی کے ارتقاء سے لے کر ہر دور میں  کتاب کسی ناں کسی صورت میں موجود رہی۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام بھیجے تو انکے ہمراہ آسمانی صحیفے اور کتابیں بھی نازل فرمائیں۔جو کہ تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید کی صورت ہمارے پاس موجود ہیں۔اسلیے کتاب کی مذہبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کہا جاتا ہے کہ اگر انسان کتاب پڑھنا چھوڑ دے تو رفتہ رفتہ اسکے لہجے سے شرینی جاتی رہتی ہے۔وہ کوئی بھی بات وثوق سے کہنے سے جھجکتا ہے۔اسکے پاس دلائل کی کمی رہتی ہے۔لیکن کتاب دوست  حضرات بھلے ڈگریوں کی کمی رکھتے ہوں مگر انکی بات میں  وزن، شائستگی  اور مدلل دلائل ہوتے ہیں۔کتاب انسان کی بہترین ساتھی اور دوست ہے جس کی رفاقت دنیا جہاں کی معلومات، شعور اور آگاہی سے نوازتی ہے۔لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے کتاب بینوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔اگر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یورپی اقوام میں  کتاب (اخبار، میگزین) پڑھنے کا رحجان ابھی بھی 65 سے 70 فیصد تک ہے۔38 سے 40 فیصد لوگ پرنٹ بکس پڑھتے ہیں۔لیکن اگر یہی شرح اپنے ملک میں  دیکھی جائے تو 30 سے 35 فیصد لوگ کتاب پڑھتے ہیں وہ بھی باامر مجبوری نصاب کی صورت۔20 فیصد لوگ اخبار بین ہیں۔جن میں زیادہ تعداد مردوں کی ہے۔خواتین اور نوجوان نسل اخبار پڑھنے سے گریزاں ہے۔اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کی بری لت ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہم سے زیادہ یورپی ممالک میں جدید ہے لیکن وہاں کتاب بینی ابھی بھی ایک تسلی بخش حالت میں موجود ہے۔لیکن ہمارے ہاں یہ رحجان دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے جو کہ ایک قابل افسوس المیہ ہے۔نتیجتاً ہماری موجودہ نسل ڈگری تو لے لیتی ہے لیکن علم کے فقدان سے دو چار ہے۔اس کم علمی کا جیتا جاگتا ثبوت ہم سوشل میڈیا پر دن رات دیکھتے ہیں۔کہ عظیم شعراء اور لکھاریوں کی تحاریر میں اوٹ پٹانگ ترمیمات کر کے غلط ناموں سے منسوب کر کے شائع کر دیتے ہیں۔اگر آج میر و غالب اور اقبالؒ زندہ ہوتے تو اپنے کلام کی یہ حالت دیکھ کے صدمے سے مر جاتے۔زیادہ دور کیوں جائیں اشفاق احمد کے اقوال اور اقتباسات کا جو حشر نشر سوشل میڈیا پہ ہوا ہے دیکھ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اپنے ادب کے ساتھ ایسی بے ادبی شاید ہی کسی قوم نے کی ہو۔مطالعے سے عاری یہ قوم فخر سے اپنے اجداد کے قیمتی خزانے کو برباد کر رہی ہے۔ہمارا طالب علم کتاب بینی سے کیوں بیزار ہے؟ اس سوال کے کئی ایک جواب ہیں۔سوشل میڈیا کے چٹ پٹے انداز نے انسان کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی ہے۔لوگ اخبار پڑھنے کی بجائے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کے کسی اینکر پرسن کی مصالحہ دار گفتگو سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔پانچ سو صحفات کے ناول کو پڑھنے کی بجائے اسے ڈرامے کی صورت دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔۔ٹی وی پر پیش کیے گئے پروگرام اس قدر رنگین ہوتے ہیں کہ کتاب کے سفید صحفے اکتاہٹ کا سبب بنتے جارہے ہیں۔افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کسی بھی ناول،افسانے یا کہانی کو فلم یا ڈرامے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تو عوام الناس کو اس چینل ، اور ان کرداروں کو نبھانے والے فنکار تو ہمیشہ یاد ہوتے ہیں لیکن اس کہانی کے تخلیق کار اور ان کرداروں کو جنم دینے والا لکھاری کبھی یاد نہیں  رہتا بلکہ نوے فیصد لوگ جانتے ہی نہیں کہ یہ کس کی تحریر ہے۔اس طرح لکھاری کی حثیت ثانوی بھی نہ رہی۔اور کتاب کہی فراموش کردی گئی۔

ہمارے علم کا یہ حال ہے کہ بی ایس سی کا طالب علم  اٹھ کے سوال کرتا ہے کہ۔۔کیا یہودی بھی مسلمان ہوتے ہیں؟ سوال کی نوعیت اور طالب علم کی عمر اپنی جگہ لیکن اس استاد پہ گھڑوں پانی پڑ گیا ہو گا۔یا شاید نہیں۔کیوں کہ سبھی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔والدین اور اساتذہ کا یہ فرض ہے کہ نئی نسل کو مطالعے کا عادی بنائیں۔انہیں کتاب دوست بنائیں۔کتاب بینی کے فوائد سے آگاہ کریں۔بچے کی دلچسپی اور رحجان کو دیکھتے ہوئے اسے کتاب  پڑھنے کی ترغیب دیں۔

خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔اگر وہی دماغ مطالعے کا عادی ہو تو کئی برے وسوسوں اور فتور سے نجات مل سکتی ہے۔تخریبی سوچ تعمیری ہو سکتی ہے۔

سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں  اس قدر رچ بس گیا ہے کہ آج کا طالب علم کتاب پڑھنے کی بجائے امتحانات کی تیاری کے لیے بھی گوگل کا مرہون منت ہے۔ایسی کئی  بڑی وجوہات مل کر کتاب کی موت کا سبب بنتی جارہی ہیں۔قاری نے پڑھنا چھوڑ دیا کتاب نے بکنا چھوڑ دیا، پبلشر کو رقم نہ ملی اس نے لکھاری سے منہ موڑ لیا۔یوں حالات سے تنگ آ کر لکھاری نے لکھنا چھوڑ دیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب مر گئی۔

اخلاقیات کی لاش پر رو رو کے ہلکان اس سوگوار قوم نے قرآن سے لے کر نصاب تک سبھی کتابوں سے دوری اختیار کر لی۔والدین نے توجہ نہ دی، استاد نے ترغیب نہ دی، اور جدت کی ہوا رہی سہی کسر بھی نکال دی۔سوشل میڈیا کا اژدھا سبھی کے ذوق و شوق کو نگل گیا۔کتب خانوں میں رکھی قیمتی کتابیں دیمک کی خوراک بنتی جارہی ہیں۔بچھی کچھی اپنے قارئین کی منتظر ہیں۔لیکن ہماری نئی نسل کتاب بینی کے ذوق سے کوسوں دور ہے۔دن رات برقی آلات کے  سامنے بیٹھ کے  آنکھیں جلائی جاسکتیں لیکن تنہائی اور سکون سے بیٹھ کے کتاب نہیں پڑھی جا سکتی۔۔۔۔۔۔۔انجام ہمارے سامنے ہے۔تخریبی سوچ، پرتشدد رویے، علم و معلومات کا فقدان، اخلاقیات کی کمی، اوچھے لہجے اور غیر مدلل اور روکھی پھیکی گفتگو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارود کے بدلے ہاتھوں میں  آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

جواب چھوڑ دیں