ہم زندہ قوم ہیں

زمین 23 گھنٹے پر روٹیشن کے ساتھ گھومتی ہے اور اس زمین پر بسنے والے اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی زندگی کی اونچ نیچ میں۔اب انسان کی زندگی کے ذاتی مفاد ہو یا کاروباری سیکینڈ بھی نہیں لگتا اور انسان اپنی قابلیت سے جنگل کی لکڑی کاٹتا ہوا میں گاڑی اًڑانے اور مارس تک جانے کی پلاننگ کر بیٹھتاہے۔پر کیا کسی انسان نے کسی جان لینا وائرس کے آتے ہی دنیا رکنے کے بعد اسے پھر سے ویسے فریم میں لانے کی تیاری کی تھی؟ کیا دنیا نے کسی بھی وائرس کے حملہ آور ہونے کے پیشِ نظر بچائو کی تیاری کی؟ یا جتنا جانی اور مالی نقصان اب تک دنیا کو ہوا ہے ان سب کی بھرپائی ہوسکتی ہے؟کورونا وائرس کے عالمی پھیلاؤ کے بعد ’سوشل ڈسٹینسنگ‘ یا ’سیلف آئسولیشن‘ جیسے ضروریات زندگی بن گئی۔ جن کی وجہ سے دنیا ایک دوسرے سے کٙٹتی دکھائی دی تو وہی ایک زندہ قوم بن کر پاکستان کے بسنے والے اپنے ہم وطنوں کے لیے جان کی بازی لگا کر سامنے آئے جیسے جوان بارڈر پر پاکستان کی رکھوالی کرتے ویسے ہی ڈاکٹرز کا عملہ دنیا بھر میں موت کے منہ کا دروازہ بن کر کھڑا ہوگیا اور ایک کے بعد ایک موتیوں کی طرح چن کر وائرس زدہ شخص کو دوسری زندگی دے کر دنیا کی طرف دوبارہ لوٹادیا۔اب تک پوری دنیا کے سائنس دان جی جان لگا کر وائرس کا علاج ڈھونڈ رہیں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وائرس لاعلاج ہے احتیات ہی بچائو ہے اب تک کوئی ایسی دوا نہیں بنی جو اکھڑتی سانسوں کو روک سکے۔لوگوں کے پیارے ان کی آنکھوں کے سامنے تڑپتے ہوئے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے اور اپنے ہنستے بستے خاندانوں کو روتے بلکتے چھوڑگئے کتنوں کو آخری دیدار کا موقع تک نہیں ملا۔ہم میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں دنیا میں جو دور اندیشی کرسکے مگر قدرت نے ہر انسان کی اس دنیا سے رخصتی کے معاملات طے رکھے ہیں پھر وجہ قدرتی آفات ہو یا کوئی وباء۔آج بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور بروقت تیاری نہ کی اور سائنسدانوں، ماہرین کی وارننگ پر توجہ نہ دی تو یقینا قدرتی آفات زمین کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں اور ہم انسان ہمیشہ کی طرح قدرت کے آگے لاچار۔

پاکستان میں جب وائرس کا پھیلاو شروع ہوا وہاں ایک طرف وہ لوگ موجود تھے جو وائرس کا شکار تیزی سے ہوتے ہوئے موت کے منہ میں جارہے تھے تو دوسری طرف روز کمائی کرکے اپنا خاندان چلانے والا وہ طبقہ وہ لوگ جو لاک ڈاون سے حد سے زیادہ متاثر ہوئے اور نوبت فاقوں پر چلی گئی اس وقت میں ان کے کیے مسیحا بن کر حکومت کے ساتھ ساتھ وہ لوگ آگے آئے جنہوں نے دن رات ضرورت مند لوگوں اور سفید پوش افراد کو ڈھونڈ کر انکے گھروں تک پہنچ کر انکی مدد کی اور ضروریاتِ زندگی کا سامان مہیا کرکے ان تک پہنچایا۔حتیٰ کہ کوئی شخص پاکستان میں کھڑا یہ نہیں کہ سکتا کہ پاکستانی اس مشکل گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کے لیے کھڑے نہیں ہوئے۔ ایک دوسرے سے ہاتھ دور ضرور تھے مگر ہاتھ بندھے نہیں تھے سب ساتھ کھڑے رہے۔وہ تمام ادارے جو رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی سحری دے افطار تک لوگوں میں راشن کی فراہمی کرتے رہے ان تمام آرگینائیزیشن کو خراجِ تحسین پیش ہے ان تمام ضرورت مند افراد کی جانب سے جو مایوس کھڑے اس وباء کے اختتام کی دعائے کررہے ہیں تاکہ معمولاتِ زندگی بحال ہوسکے۔کورونا وائرس نے زندگی کا پہیہ جام کردیا، کم و بیش سب ہی کاروبار ٹھپ کردیے ہیں۔قومی ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کا سلسلہ جاری ہے یہاں کبھی پیٹرول تو کبھی روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کا مسئلہ درپیش ہے۔جہاں ایک طرف مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو تو دوسری طرف بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہونا شروع ہورہا ہے۔لوگوں نے چند مہینے احتیات کے بعد اب وائرس کی موجودگی کو احتیات کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔کیونکہ وائرس جان لیوا ضرور ہے البتہ گھر بیٹھے روزی نہیں کمائی جاسکتی اور لاک ڈاون واحد حل نہیں۔وائرس کے چلتے ایسے بہت سے چھوٹے بڑے کاروبار ہیں جو بند ہوچکے ہیں جہاں کام کرنے والے لوگ پریشانی کے عالم میں نئی ملازمت کی تلاش میں ہیں ایسے میں مہنگائی کا طوفان ان دنوں ایسے لوگوں کے لیے ایک الگ کسوٹی ہے۔اس وقت بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں نوکریوں اور چھوٹے بڑے کارخانوں میں ملازمتوں کی ضرورت ہے۔حکومت کو ان لوگوں کے لیے ایسی پلاننگ کی ضروت ہے جہاں ان تمام افراد کو روزگار کی فراہمی ہوسکے۔

 

ایک زندگی کو جو بچا لیا ہم نے

سمجھو ایک فرض اپنا نبھالیا ہم نے

جواب چھوڑ دیں