عمران خان کے خلاف’’عمرانی معاہدہ‘‘آئے گا کیا؟ 

معاہدہ عمرانی مشہور فرانسیسی فلاسفر ژاں ژاک روسو کی تحریر کردہ مشہورِ زمانہ کتاب ہے جس میں انہوں نے سیاسی حکومت میں انسانی حقوق وٖضع کرنے کے بارے میں تفصیل پیش کی ہے۔اس کتاب کا شمار ان کتب میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے نظریات کی وجہ سے انسانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے۔نہ صرف اپنے فلسفہ کے اثرات کے ثمر لوگوں تک پہنچایا بلکہ پیش کردہ فلسفہ کی گہرائی و گیرائی نے انسانی معاشرہ کو بھی بدل کے رکھ دیا۔کتاب معاہدہ عمرانی کا پہلا جملہ ہزاروں بار بطور دلیل،ضرب المثل یا تحریک کے دہرایا جاتا رہا ہے اور نہ جانے کب تک اس جملہ کے سحر کا اثر رہتا ہے۔ ’’انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے‘‘

 اگرچہ یہ ایک مشکل ترین کام ہے کہ جب انسان ایک بار کسی کی غلامی اختیار کر لے تو اسے اس بات پہ قائل یا مائل کرنا کہ وہ آزاد بھی ہو سکتا ہے۔ اکثر ماہرین نے اس کتاب کے سیاسی فلسفہ کو تسلیم نہیں کیا مگر اس کتاب کے اثرات کو ہر کسی نے قبول کیا۔پھر بھی انسان کو آزادی کی طرف لے جانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ایک دلیل تو روسو کی کتاب میں ہی مل جاتی ہے کہ وہ لکھتا ہے کہ ’’انسان کو آزاد ہونے پہ مجبور کیاجا سکتا ہے‘‘گویا یہ غلام کی منشا و مرضی نہیں بلکہ کوئی دوسری قوت اسے آزاد ہونے میں مدد کرے گی۔

دوسری مثال جب امریک میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی تھی اور لوگوں کو بلا سبب غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا تھا تو ایسے میں ایک امریکی خاتون ہیرئٹ نامی نے ایک خفیہ تنظیم بنائی جو غلاموں کو بھاگ جانے میں مدد کیا کرتی تھی۔ایک بار اس خاتون سے پوچھا گیا کہ تمہارے مشن میں سب سے مشکل مرحلہ کون سا ہوتا ہے تو اس خاتون نے جواب دیا کہ ’’غلام کو یہ ترغیب دینا کہ تم غلام نہیں ہو اور آزاد ہو سکتے ہو‘‘

والٹئر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا کہ’’ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا بہت مشکل ہے جنہیں اپنی بیڑیوں سے پیار ہو‘‘

نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ

اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے

اس لئے کہ

بیڑیاں پائوں میں نہیں ہوتیں

لوگ ذہنی غلام ہوتے ہیں

گویا معاہد عمرانی کی رو اس بات میں مضمر ہے کہ سیاسی معاملات میں عوام کے حقوق کو اہمیت دے کر انہیں معاشرہ میں باعزت مقام دینا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں وہ کون سے نقائص ہیں کہ جس کی بنا پہ ہم کہہ سکیں کہ عوام اب اس حکومت کومزید برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہے اور ایک نیا عمرانی معاہدہ چاہتی ہے تاکہ انہیں ان کے سیاسی ومعاشی حقوق مل سکیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ حالات کسی طور بھی ایسے نہیں ہیں کہ حکومت کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور وجہ کے گھر بھیجا جا سکے۔دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے تین طریقے ہو سکتے ہیں۔جمہوری طریقہ کہ جس میں الیکشن کروائے جائیں،لیکن نئے الیکشن سے قبل یہ دیکھنا ہوگا کہ عمران خان کی حکومت کو گرایا کیسا جائے اور دوسری بات یہ کہ کیا ملک حالیہ صورت حال میں نئے الیکشن کا متحمل بھی ہو سکتا ہے کہ نہیں۔

دوسرا طریقہ ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کر دیا جائے،ایسی صورت میں بھی عوام کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں کہ عمران خان کے خلاف وہ ڈائریکٹ عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکیں۔ایسا صرف حزب مخالف ہی کرسکتے ہیں۔لیکن حزب مخالف میں اس وقت کون سا ایسا لیڈر ہے جو یہ ایکشن لے سکے۔اگر وہ ایسا کرنے کی ہمت رکھتے ہوتے تو ابھی تک خالی نعرہ بازی سے کام نہ لے رہے ہوتے بلکہ گذشتہ ادوار کی طرح چند ایم این ایز کے ساتھ ملی بھگت کرکے یہ کام کر چکے ہوتے،کیونکہ حکومت اور اتحادی اپوزیشن میں کچھ زیادہ ووٹ کا فرق بھی نہیں ہے۔پھر دو بڑی جماعتوں میں سے ایک کے زیادہ راہنما ملک سے باہر اور دوسری بڑی پارٹی میں قیادت کا بحران دکھائی دیتا ہے۔تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اونٹ کے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔

رہ گئی تیسری صورت تو اس میں ریفرنڈم کے ذریعے سے حکومت کے خلاف عوامی فیصلہ لیا جا سکتا ہے کہ کیا عوام اس حکومت کا ساتھ دینے کو تیار ہیں کہ نہیں،لیکن ریفرنڈم کے لئے بھی تو عمران خان کی حکومت کو پہلے گھر بھیجنا ہوگا اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب ملک میں مارشل لا یا ایمرجنسی لگی ہوئی ہو۔تو تیسرے طریقے کے لئے بھی ملک کسی طور متحمل نہیں ہوسکتا اور پھر بقول تمام حزب اختلاف راہنما کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں تو گویا تیسری آپشن بھی اپلائی نہیں کی جا سکتی۔

عمران خان حکومت کے خلاف عوامی کارڈ استعمال کرنے سے قبل چند حقائق جاننا چاہتا ہوں،زمانہ قدیم سے سندھ سے لے کر جنوبی پنجاب کا علاقہ کاٹن بیلٹ کہلاتا تھا۔دنیا کے بہت سے ممالک کو یہاں سے بہترین کاٹن درآمد کی جاتی تھی مگر ایک سازش کے تحت اس علاقہ کو شوگر انڈسٹری میں تبدیل کردیا گیا ذمہ دور کون؟پنجاب کے کئی علاقوں کی فصلوں کو تباہ کر کے انڈسٹریل زون میں تبدیل کرنے والے کون،پی آئی اے اور سٹیل مل حکومت کرنے والے چلا نہ سکے مگر ان کی اپنی ائرلائن اور انڈسٹری دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی،قصور کس کا،مافیا حکومتی ایوانوں کو کنٹرول کر رہا ہے،کیسے؟عمران مافیا کے ہاتھوں کھلونا بن گیا ہے،مان لیا۔لیکن ہم عوام کی ذمہ داری کیا ہے؟کیا عوام کے ہاتھ بندھے ہوئے ہے،عوام کیوں ان مافیاز کا بائیکاٹ نہیں کرتی۔

عوام اگر ریاستی اداروں کے خلاف اپنا ضمیر جگا کر سڑکوں پر احتجاج کی غرض سے آسکتے ہیں تو پھر آٹا چینی اور پٹرول کے بحران کا بائیکاٹ کر کے کیوں انہیں ٹگے ٹوکری کرنے میں حکومت وقت کی مدد نہیں کرتی۔عوام اگر حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر کے حکومتوں کو گرانے کی ہمت اور جرات رکھتی ہے تو پھر مافیاز کے خلاف سینہ سپر ہونے سے انہیں کون روکتا ہے۔آئیے آج ہی حکومت کی بجائے ایسے مافیاز کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ایسے چیزوں کا چند روز کے لئے ہی سہی بائیکاٹ کر کے انہیں یہ پیغام دیں کہ اگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہ کی تو ہم ان کا استعمال ترک کرددیں گے۔

اسی طرح سے ہم معاہدہ عمرانی کی پاسداری کر سکتے ہیں کیونکہ معاہدہ عمرانی صرف حقوق تک رسائی کا نام نہیں بلکہ اپنے فرائض کی بجا آوری کا نام بھی ہے۔ان سب حقیقتوں پر عمل کر کے ہم عمران خان کا نہیں بلکہ اپنا اور اپنے وطن کا ساتھ دیں گے جو ہم عوام کا فرض ہے۔اسی فرض کی بجا آوری سے ’’عمرانی معاہدہ‘‘کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

5 تبصرے

جواب چھوڑ دیں