میں بھی وہاں موجود تھا اور میرے چاروں بیٹے الحمدللہ …سیدی مرتے دم تک ہم نے آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ تا قیامت کبھی ایک انچ بھی آپ کے چھوڑے ہوئے نقوش پا کو فراموش کریں گے۔ آپ سے پہلے آپ کا مشن جو میرے باپ مولانا محمد عبدالعزیز کا مشن تھاہے اور رہے گا ان شاءاللہ۔ آپ کی کبھی سخت کبھی الفت و محبت بھری ڈانٹ بھی سنی اور اس سےاپنے ایمانی ولولے کوجلا بخشی، کبھی تحسین بھری نگاہیں اور عقابی انداز سے حرارت پائی۔
میں پورے شعورمیں آپ سے پانچ دہائیوں سے ولولہ تازہ، ٹکرانے کا جذبہ اور مزاحمت کا ہنر جانا ہے۔ وہ میرے پورے خاندان کا قابل فخر، متحرک قائد اور جرات کا استعارہ تھے۔ ہم بالیقین کہتے ہیں اوررب کی رحمت سےیہ امید رکھتے ہیں کہ تمہاری مسکراہٹ ہی قبر کی پہلی منزل کو منور کر گئی ہوگی ان شاءاللہ ۔ نہ دبنے والا، نہ جھکنے والا، نہ اقتدار کو خاطر میں لانے والا۔ وہ تو دھیما بھی اور سرعت بھی، چاند کی ٹھنڈک اور چکا چوند کرنے والی بجلی ،استعمار اور طاغوت کے خلاف ہمہ وقت وہمہ تن ہشیار و بیدار۔ہم دل تیار مرد مومن،مرد مجاہد،نرم دم گفتگو،گرم دم جستجو کے مصداق کفار کے حلقوں میں بے چینی پھیلانےوالے ۔
؎ ہوحلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن
کی عملی تصویر۔سید صاحب ہم آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے،ہم آپکے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔سید جن کا ہاتھ لیتے اور جو سید کو ہاتھ دیتے ہیں،خوب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔سیدی ہمارے دل رو رہے ہیں۔لیکن ہم رضائے الہی پرراضی ہیں۔ہم نے احترام ،دلفگار اور نم آنکھوں سے تمہیں رب ذوالجلال والاکرام کے حوالے کردیا…….سیدی اللہ حافظ وناصر۔